پیر، 4 مئی، 2009

مغيث الدين فريديي يادوں كي روشني ميں/ Mughisuddin Faridi

ڈاكٹر شيخ عقيل احمد
(Associate Professor)
e-mail:aquilahmad@yahoo.com
Website:people.du.ac.in/~aahmad

مغيث الدين فريديي يادوں كي روشني ميں

ستمبر 1986كي وه شام آج بھي مجھے ياد هے جب ايم-اے ﴿اُردو﴾ كي شبينه كلاس كے ليے ميں دهلي يونيورسٹي كي آرٹس فيكلٹي آيا تھا جهاں كلاس روم كے سامنے پارك ميں ايك بزرگ استاد اپنے چند طالب علموں كے ساتھ محو گفتگو تھے۔ ان كا چهره گورا چٹا اور شگفته تھا۔ بال سفيد تھے۔ هاتھ ميں ايك چھڑي تھي۔ خانداني شرافت اور پر وقار شخصيت ميں دل كشي صاف نظر آرهي تھي۔ وه بزرگ استاد كوئي اور نهيں داكٹر مغيث الدين فريدي تھے۔ جھجھكتے هوئے ميں اُن كے قريب پهنچا اور بتايا كه ميں عقيل احمد هوں اور كچھ روزپهلے ميرا داخله يهاں هوا هے ليكن آج پهلي بار شبينه كلاس ميں حاضر هوا هوں۔فريدي صاحب نے بڑي محبت سے مجھے بيٹھنے كے ليے كها اور اپني گفتگو جاري ركھي۔ كچھ هي دير ميں كئي اور طلبه وهاں آگئے۔ كلاس كا وقت بھي هو گيا تھا۔ فريدي صاحب نے اپني گھڑي ديكھي اور كلاس روم ميں چلنے كے ليے كها۔ وهاںموجود تمام طلبه ان كے همراه كلاس روم كي طرف چل پڑے۔ كئي سوالات اپنے ذهن ميں ليے ميںوهاں كھڑا هواابھي سوچ هي رها تھا كه استاد نے ميري طرف اشاره كرتے هوے كها كه آئيے آپ بھي تشريف لائيے۔ ميں فوراً ان لوگوں كے ساتھ كلاس روم ميں داخل هوااور ايك طرف بيٹھ گيا۔ فريدي صاحب نے مجھے كلاس كا وقت اورسليبس لكھنے كے ليے كها۔ پھر بعد ميں انھوںنے مير كي ايك غزل پڑھائي۔ايك هي غزل پڑھانے ميں وقت ختم هو گيا—هر شعر كي تشريح، اس كي شاعرانه خوبي، شعر ميں اگر كوئي ٫٫كليدي٬٬ لفظ هے تو وه كون سا هے۔دوسرے شعرا نے اسي مضمون كو اپنے كسي شعر ميں اگر باندھا هے تو كيسے۔ رنگ و آهنگ اوردل كشي كے اعتبار سے دونوں اشعار ميں كيا فرق هے اور ان اشعار كا تهذيبي اور تاريخي پس منظر كيا هے؟ وغيره وغيره۔ ان تمام پهلوئوں پر فريدي صاحب ايسے روشني ڈال رهے تھے جيسے ان اشعار كے خالق وناقد وهي هوں—غزل كے موضوع پر جب وه تقرير كرتے تھے تو ان كي آنكھوں ميں چمك پيدا هو جاتي تھي چهره كھل جاتا تھا۔ ايك عجيب وغريب كيفيت طاري هو جاتي تھي اور ايسا لگتا تھا كه ان كے هونٹوں سے ليكچر نهيں پھول جھڑ رهے هوں۔ كلاس ميں سنّاٹا چھا جاتا تھا۔ ايسا لگتا تھا كه كلاس ميں ان كے شاگرد نهيں بلكه مجسمّے بيٹھے هوئے هوں— فريدي صاحب كے پڑھانے كا انداز اتناپياراتھا كه اكثر ان كے كليگ چپكے سے ان كي كلاس ميںجابيٹھتے تھے۔
فريدي صاحب كلاس ختم كركے جب واپس جانے لگتے تھے تو ان كے تمام شاگرد بھي ان كے ساتھ ساتھ باهر گيٹ تك جاتے تھے۔ گيٹ سے فريدي صاحب كي رهائش گاه بي-٣١ ريڈس لائن كي دوري دو سو ميٹر سے زياده نهيںتھي پھر بھي فريدي صاحب كو وهاں تك پيدل جانا گواره نه تھا لهٰذا وه هميشه ركشے سے جايا كرتے تھے۔چونكه ميں اسي راستے سے انٹر نيشنل هوسٹل جايا كرتا تھا اس ليے اكثر وه مجھے بھي اپنے ساتھ بٹھا ليا كرتے تھے۔ كبھي كبھي كلاس كے بعد وه سيدھے كيمپ جايا كرتے تھے جهاں سے دوائيں اور پھل وغيره خريدا كرتے تھے۔ كيمپ جاتے وقت وه مجھے ضرور ساتھ لے جاتے تھے تاكه انهيں ركشا سے اترنا نهيں پڑے۔ ايك روز ميں ان كے ساتھ كيمپ جا رها تھا كه راستے ميں انهوں نے اپنے گھر كي طرف چھڑي سے اشاره كرتے هوے كها كه وه هے ميرا گھر— گرائونڈ فلور پر — كل سے چھٹياں هو رهي هيں۔ اگر تمهيں كچھ پوچھنا هو تو چلے آنا لهٰذا ايك شام ميں ان كے گھر گيا تو ان كے گھر كا دروازه كھلا هوا تھا۔ ان كے بڑے بيٹے شاهد مغيث جن كي عمر ٩٢ يا ٠٣سال كي تھي، باهر برآمدے ميں گيند كھيل رهے تھے۔فريدي صاحب ڈرائنگ روم ميںبيٹھے هوئے تھے۔ انھوں نے مجھے اندر آتے هوے ديكھ ليا تھا۔ اس سے پهلے كه ميں گھنٹي بجاتا انهوں نے اندر سے آواز دي كه عقيل آجائو ميں اندر جاكر بيٹھ گيا فريدي صاحب مجھ سے كچھ پوچھنے لگے اتنے ميں ان كے بيٹے شاهد جو باهر كھيل رهے تھے اندر آگئے اور اپنے مخصوص لب و لهجے ميں كچھ پرانے واقعات و حادثات اور چند نئي خبروں كي جانكاري مجھے دينے لگے جس كوسمجھنے سے ميںبالكل قاصر تھا ليكن فريدي صاحب ان كي باتوں كا ترجمه كرتے رهے۔ انھوں نے بتايا كه شاهد جب پانچ سال كے تھے تو ان كا دماغي Developmentرك گياتھا۔ اس وقت سے آج تك ان سے چھوٹے بچوں جيسا سلوك كيا جاتا هے۔ ميں ان كے بيٹے كي معصوم ادائوں كو ديكھ كر بهت متاثر هوا۔ اور شايد بھائي كي وجه سے اكثر ان كے گھر جانے لگا۔ رفته رفته ميں ان كے گھر كا ايك فرد هو گيا۔ميرا بيشتر وقت ان كے گھرگذرتا۔ اس ليے فريدي صاحب كو ميں نے هر روپ ميں ديكھا هے اور هر روپ ميں ميں نے انهيں ايك مثالي انسان پايا۔
فريدي صاحب ايك سچے، ايماندار اور مشفق استاد تھے۔ درس و تدريس هي ان كي زندگي كا سب سے بڑا مقصد تھا۔ اپنے شاگردوں كي كاميابي پر فخر محسوس كرتے تھے۔فريدي صاحب نے كبھي بھي اپني كلاس نهيں چھوڑي اور اگر چھوڑي بھي تو غير معمولي صورت حال پيدا هونے كے بعد۔فريدي صاحب كے گھر سے آرٹس فيكلٹي كي دوري پانچ منٹ سے زياده كي نهيں تھي ليكن وه كلاس شروع هونے سے ايك گھنٹه پهلے اپنے گھر سے نكلتے تھے اور نكلنے سے دو گھنٹه پهلے سے اپنے آپ كو ذهني طور پر تيار كرتے تھے۔ انهيں كيا پڑھاناهے اور كيسے پڑھانا هے اس كي تياري پهلے سے كر كے جاتے تھے۔
فريدي صاحب اپنے استاد پروفيسر حامد حسن قادري اور پروفيسررشيد احمد صديقي سے بهت متاثر تھے اور ان سے بے حد محبت كرتے تھے اور اپنے انهيں اساتذه كي طرح اپنے شاگردوں كو شاعري كے تمام رموزوعلائم سمجھاتے تھے۔
فريدي صاحب صبح سے شام تك اپنے شاگردوں اور دوستوں سے گھرے رهتے تھے۔ شبينه كلاس كے طلبه كے علاوه صبح كے كلاس كے طلبه بھي فريدي صاحب كے گھر جايا كرتے تھے اور فريدي صاحب انهيں گھنٹوں بيٹھا كر پڑھايا كرتے تھے۔ فريدي صاحب كو شاعري كے تمام اصناف پر قدرت حاصل تھي ليكن فريدي صاحب كا خاص موضوع عروض تھا لهٰذا عروض كافي دلچسپي سے پڑھايا كرتے تھے۔ اور شاگردوں سے مشق كرايا كرتے تھے۔ اپنے تمام شاگردوں ميں ادبي ذوق پيدا كرنے كے ليے كو شاں رهتے تھے۔ ادبي اور شعري ذوق ركھنے والے اپنے شاگردوں اور دوستوں كے آنے سے بهت خوش هوتے تھے بلكه ان كي طبيعت بھي بهل جاتي تھي۔ ايسے دوستوں اور شاگردوںكو فارسي كلاسيكي شعرا، اُردو كلاسيكي شعرا اور جديد شعرا سے متعلق متعدد قصے، كهانياں اور واقعات سنايا كرتے تھے۔ ايران كے تمام شهنشاهوں كے علاوه هندو ستان كے مغليه سلطنت كے دورِ حكومت ميں شاعروں كي كيا اهميت تھي، شاعر كس پائے كے هوتے تھے، شاعروں كي سر پرستي شاهانِ وقت كس طرح كرتے تھے۔شاعروں نے بادشاهوں كي شان ميں كس معيار كے قصيدے لكھے۔ درباروں ميں قصيدے اور شاعري سنانے كے آداب كيا تھے۔ بادشاهوں نے ايك ايك شعر كے بدلے شاعروں كو كيسے كيسے انعامات و اكرامات سے نوازا اور كن كن شعراكو سونے چاندي اور هيرے جواهرات ميں تولا گيا۔ ان ادوار كي تهذيبي، ادبي اور شعري فضا كيا تھي۔ ان ادوار كي شاعري كے محر كات و عوامل كيا تھے۔ بادشاهوں، شهزادوں، شهزاديوں اور شاعروں كے مدركات شعرو شاعري نيز ان كي زندگي ميں هونے والے كئي دلچسپ واقعات و حادثات اور ادبي لطيفوں كا ذكر ايسے كرتے تھے جيسے انهوں نے ان ادوار كو اپني آنكھوں سے ديكھا هے اور ان تمام پهلوئوں كا مشاهده كيا هے۔مجھے افسوس هے كه اُن كے اتنے قريب هونے كے باوجود ميں ان كي سنائي هوئي وه تمام تاريخي، تهذيبي، ادبي اور شعري حكايات نوٹ نه كر سكا اور نه ٹيپ كر سكا ورنه اس موضوع پر ايك نادر و ناياب كتاب لكھي جا سكتي تھي۔بلا مبالغه فريدي صاحب علم و ادب كي ايك انجمن اور مركز تھے۔ ان كي شخصيت سے علم كي شعاعيں پھوٹتي تھيں جس سے كئي تاريك ذهنوں كو روشني ملي۔ ميں نے جب بھي ان سے علمي و ادبي گفتگو كي يا ان سے علمي باتيں سني تو هميشه يه محسوس كيا كه اگر ميں دن رات كتابيں پڑھتا رهوں تو بھي ميري صلاحيت ان كے خاكِ پا كے برابر نهيں پهنچ سكتي۔ لهٰذا كبھي كبھي چھوٹے بچوں كي طرح ميں سوچنے لگتا تھا كه ميرے پاس يا فريدي صاحب كے پاس كوئي غيبي طاقت هوتي تو تھوڑي سي صلاحيت ان كے دماغ سے اپنے دماغ ميں منتقل كرا ليتا اور اس طرح ان كا صحيح جاں نشيں اور شاگرد هونے كا شرف حاصل كر ليتا۔
فريدي صاحب كو ايك والد كے روپ ميں بھي بے حد قريب سے ديكھا هے۔ فريدي صاحب كے صرف دو بيٹے هيں۔ شاهد مغيث اور فيض الدين فريدي۔ فيض الدين فريدي ان كے چھوٹے بيٹے هيں جو سعودي عرب ميں ملازمت كرتے تھے اورمكّه معظمه و مدينه منوًره ميں هميشه حاضري ديتے تھے۔ فريدي صاحب كو مكّه معظمه و مدينه منوًره ميں حاضر هونے كا كبھي موقع نهيں ملا ليكن انهوں نے اپنے بيٹے كي آنكھوں سے مكّه معظمه اور مدينه منوًره كي زيارت بار بار كي هے۔ اپنے بيٹے كي زبان سے حضور اكرم كے در بار تك اپنا سلام و پيا م پهنچايا هے يه شعر انُهوں نے اسِ موقع پر بے ساخته كها تھااور اكثر اسے رو رو كر پڑھا كرتے تھے۔
ميں اپني شومي قسمت سے دور هوں ليكن
بشكلِ فيض هيں قلب و نظر مدينے ميں
فريدي صاحب اور ان كے بيٹے كے درميان مرا سلات كا وه سلسله محض خيرو خبر اور سلام و كلام پر مبني نهيں تھا۔ ان مرا سلات كو اگر آپ پڑھيں تو معلوم هوگا كه حضور اكرام كے دربار اور فريدي صاحب كے درميان كتنا گهرا تعلق تھا۔ اس ليے فيض فريدي كے خطوط پهلے آنكھوں سے لگاتے تھے پھر اسے بار بار پڑھتے تھے۔ اپنے شاگردوں اور دوستوں كو بھي سنايا كرتے تھے۔ پروفيسر خواجه احمد فاروقي اور ڈاكٹر فرحت فاطمه صاحبه كو بھي خاص طور پر سنايا كرتے تھے۔خواجه صاحب ان خطوط كي فوٹو اسٹيٹ كا پي اپنے فائل ميں ركھتے تھے كيوںكه ان خطوط ميں مكّه معظمه، مدينه منوره، مسجد نبوي، خانه كعبه اور دوسرے كئي مقدس مقامات كي تصوير كشي بے حد محبت، عقيدت اور جذبے سے لبريز هوتي تھي ساتھ هي ان كي ايك ادبي اهميت بھي تھي۔ فريدي صاحب كو اپنے چھوٹے بيٹے فيض فريدي كي سعادت مندي، خدا اور خدا كے رسول كے تئيں جذبه محبت پر فخر تھا۔ فيض فريدي سعود يه سے جب دهلي تشريف لاتے اور هوائي اڈّے پر جب دونوں باپ بيٹے ايك دوسرے سے گلے ملتے اور ايك دوسرے كو چشم عقيدت سے ديكھتے تو ميري آنكھوں كے سامنے وه منظر آجاتا جب حضرت يعقوب عليه السلام برسوں كي جدائي كے بعد اپنے بيٹے حضرت يوسف عليه السلام سے ملے تھے اور بيٹے نے باپ كي تعظيم ميں اور باپ نے پيغمبر بيٹے كي تعظيم ميں ايك دوسرے كو سجدے كيے تھے اور ايك دوسرے كے گلے مل كر خوشي سے زارو قطار روئے تھے۔
فريدي صاحب ايك فرشته صفت انسان تھے۔ ان كے اندرخدااورخداكے رسول كے تئيں خودسپردگي كاجذبه تھا اوريهي جذبه صحيح معنوں ميں عبادت هے اور ايسے لوگ اپنے ليے نهيں بلكه دوسروں كے ليے جيتے هيں۔ اپنے فرائض كوحكم خدا وندي سمجھ كر انجام ديتے هيں۔ فريدي صاحب نے بھي اپنے تمام فرائض كو حكم خدا وندي سمجھا اور بخوبي انجام ديا۔ جيسا كه ميں پهلے ذكر كر چكا هوں فريدي صاحب كے بڑے بيٹے شاهد مياں دماغي طور پر پانچ سال كے بچے تھے ليكن جسماني طور پر ٦٣ يا ٧٣ سال سے بھي زياده عمر كے تندرست و توانا نوجوان لگتے تھے۔ ان كي تمام ادائيں، حركات و سكنات معصوم بچوں كي طرح تھيں۔ ليكن كبھي كبھي نه جانے وه كن ذهني يا جسماني تكاليف سے دو چار هوتے تھے كه اچانك تخريبي حركتيں كرنے لگتے تھے۔جوتے، چپلوں اور ڈنڈوں سے وار كرنے لگتے تھے اور ان كا نشانه زياده تر فريدي صاحب هي بنتے تھے جب كه فريدي صاحب خود دل كے مريض تھے اور دو بار اس مرض كي زد ميں آچكے تھے۔ مزيد يه كه وه بے حد نازك مزاج اور لطيف طبيعت كے انسان تھے۔ معمولي سے معمولي نا ساز گار حالات كو برداشت كرنا ان كے بس كي بات نهيں تھي پھر بھي انهوں نے شايد مياں كے تمام تخريبي حركتوں كو نه صرف برداشت كيا بلكه اِن حركتوںكو اُن كي معصوم ادا ئوں كاايك حصّه سمجھا اور لطف اندوز هوئے۔شاهد مياں كي هر ادا انهيں بھاتي تھي يهي وجه تھي كه فريدي صاحب نے شاهد مياں كو كبھي بھي اپنے آپ سے جدا نهيں كيا۔ انهيں كسي هوسپيٹل يا نرسنگ هوم ميں داخل نهيں كرايا۔ هر وقت شاهد مياں۔ شاهد مياں كرتے رهتے تھے۔ كبھي شاهد مياں كو پيار كرتے اور كبھي شاهد مياں خود انهيں پيار كرتے۔ شاهد مياں كو كبھي پاني لانے كے ليے تو كبھي پان اور چھاليا لانے كو كهتے اور كبھي فيض مياں كو يا كبھي ان كي والده كو بلانے كے ليے كهتے اور اس طرح شاهد مياں ايك فرما ںبردار بچّے كي طرح فريدي صاحب كي خدمت ميں مشغول نظر آتے۔ فريدي صاحب جب كبھي شاهد مياں كو كھِلونے يا گيند يا ٹوفي لاكر ديتے تو شاهد مياں خوشي سے اُچھل جاتے تھے اور ان كي آنكھوں ميں خوشي كي چمك ديكھ كر فريدي صاحب كي آنكھيں خوشي سے بھر جاتي تھيں۔ شاهد مياں كي چھوٹي چھوٹي آرزئوں كي تكميل كرنا، ان كي خدمت كرنا، ان كي داڑھي بنانا، ان كا منھ دھلانا، انهيں نهلانا، ان كو كپڑے پهنانا اور ان كا خيال ركھنا هي فريدي صاحب نے اپني زندگي كا مقصد جانا فريدي صاحب كے يه تمام اعمال عبادت هي تو هيں۔ اس سے بڑي عبادت اور كيا هو سكتي هے؟
فريدي صاحب كي بيگم صاحبه مشرف جهاں فريدي ممتا كا مجسّمه هيں۔ ان كي تمام زندگي شاهد مياں كي زندگي كے ساتھ سمٹ كر ره گئي هے انهوں نے اپني تمام خوشيوں اور آرزئوں كا گلا گھونٹ كر اپنے آپ كو شاهد مياں كے ليے وقف كر ديا هے۔ شاهد مياں كے ماضي كي چند هيبت ناك ياديں اور مستقبل كے تصورات كسي ٫٫بري بلا٬٬ سے كم نهيں هيں۔ ايسي كئي ٫٫بري بلائوں٬٬كے تصورات نے انهيں جيتے جي مار ڈالا هے۔ نيز انهوں نے فريدي صاحب كي شاعري اور وضع داري كي ناز برداري بھي كي۔ فريدي صاحب كو اپني شريك حيات كي قربانيوں كا احساس تھا اور وه تمام عمر ان كي رفاقت پر نازاں اور ان كي عالي ظرفي اور تحمل كے ممنون رهے۔ فريدي صاحب نے هميشه ان كي دل جوئي كي اور خوش ركھنے كي كوشش كي۔ فريدي صاحب كو اپني شريكِ حيات كي پكائي هوئي دال، قورمه، شامي كباب، نرگسي كوفتے، برياني، اور لهسن مرچ كي چٹني كے علاوه كوئي بھي ميٹھي چيز بے حد پسند تھي۔ مزے لے لے كر كھاتے اور تعريف كرتے۔ كھانا كھانے كے دوران طرح طرح كے پكوانوں اور پھلوں كا بھي ذكر كرتے جسے انهوں نے اپنے بچپن ميں كھايا تھا۔ ان كي والده، ان كي پھوپھياں، ان كي بهنيں اور ان كي ساس اور ان كي شريك حيات كي بڑي بهنيں كيا كيا ڈشيں بنايا كرتي تھيں اور ان خاص خاص ڈشوں كي تركيبيں اور خوبياں كيا تھيں۔ مغل شهنشاه، شهزادے شهزادياں اور لكھنو كے نوابين كے دستر خوان پر كس كس طرح كے كھانے چنے جاتے تھے۔ كھانے پينے كے ايسے لوازمات كي منظر كشي دبستان لكھنو اور دهلي كي نمائنده داستانوں ميں كي گئي هے۔ اس طرح كي تمام باتيں فريدي صاحب كھانے كے دوران كرتے تھے اور اِن كے ساتھ بيٹھے هوے گھر كے تمام فرد بڑي دلچسپي سے سنتے رهتے تھے ۔
فريدي صاحب اپنے ننھّے پوتے عظيم محمد فريدي اور پوتي منيبه فريدي سے بے پناه محبت كرتے تھے۔ ان دونوں بچوں كے ساتھ خود بھي بچه بن جاتے تھے اور انهيں بچوں كے لب و لهجه ميںگفتگو بھي كرتے تھے۔ اُن بچوں كے مخصوص لب ولهجه اور زبان ميں نظميں بھي لكھا كرتے تھے اور اپنے گھر آنے جانے والوں كو سنايا كرتے اور خود بھي بار بار پڑھ كرخوش هوتے۔ كانپور ميں ادبي اورشعري سرگرمياں نهيں كے برابر تھيں۔ شاگردوں اور دوستوں كا حلقه بھي نهيں تھا ايسے ميں يه دونوں بچے هي ان كے جينے كا سهارا تھے۔ايك هاتھ ميں چھڑي اور دوسرے هاتھ سے بچوں كو سنبھالے هوئے گُپتا كي دكان پر چلے جاتے تھے اور بچوں كو كبھي كھلونے تو كبھي ٹوفياں دلاتے كبھي كبھي موقع سے فائده اٹھاتے هوے اُن كي بهو صبا فريدي بھي گھر كے سودوں كي ايك طويل فهرست انهيں تھما ديا كرتيں اور فريدي صاحب خوشي خوشي سودے بھي لا ديا كرتے۔ فريدي صاحب كے دونوں بيٹے انهيں انكل كهه كر پكارتے تھے ليكن ان كي بهو اور دونوں بچے انهيں اباّ كها كرتے تھے اور فريدي صاحب كو اباّكهلوانا اچھا لگتا تھا۔
فريدي صاحب اپنے چھوٹے بھائي معين فريدي جو نواب مياں كے نام سے مشهور تھے اور آگره كے ايك اسكول ميں استاد تھے،سے بے پناه محبت كرتے تھے۔ هر وقت نواب مياں نواب مياں كرتے هر پريشاني اور الجھن كے موقع پر انهيں طلب كرتے اور وه بھي فوراً آگره سے دهلي آجاتے۔ دونوں بھائيوں ميں جو محبت تھي ايسي محبت ميں نے صرف ٹي وي سيريل ٫٫رامائن٬٬ ميں ديكھي هے۔ معين فريدي گال بلاڈر كے مرض ميں مبتلا هوے۔ فوراً آپريشن كها گيا ليكن اس سے كوئي فائده نهيں هوا اور آخر ميں الله كو پيارے هو گئے۔ اس سانحه كے بعد فريدي صاحب ٹوٹ گئے تھے۔ اس سانحه كو ياد كركے ان كي نيند اُڑ جاتي تھي اور بھائي كي جدائي كا صدمه برداشت نهيں كر پاتے تھے۔
فريدي صاحب اپنے تمام شاگردوں، دوستوں اور عزيزوں سے محبت كرتے تھے ليكن اپنے شاگردوں اور شاگردائوںميں سب سے زياده محبت شكيله بيگم سے كرتے تھے۔ شكيله بيگم مولانا واصف دهلوي مرحوم كي صا حب زادي اور مفتي كفايت الله، جن كا ذكر پنڈت جواهر لال نهرو نے Discovery of Indiaميں كيا هے، كي پوتي هيں ۔ فريدي صاحب كے چونكه كوئي بيٹي نهيں تھي لهٰذا وه انهيں اپني بيٹي كي طرح مانتے تھے۔
فريدي صاحب اپنے دوستوں ميں سب سے زياده پروفيسر خواجه احمد فاروقي سے محبت كرتے تھے۔ ان كے بعد ڈاكٹر شريف احمد، پروفيسر ظهير احمد صديقي، ڈاكٹر تنوير احمد علوي، پروفيسر امير عارفي، حيات جاويد صاحب، پروفيسر جي سي گوئل اور ڈاكٹر فهيم خاص هيں۔ فريدي صاحب پروفيسر خواجه احمد فاروقي كي دونوں بيٹيوں ڈاكٹر فرحت فاطمه اور نزهت فهيم سے بھي بے پناه محبت كرتے تھے۔ فريدي صاحب، استاد محترم ڈاكٹرشريف احمد اور ڈاكٹرتنوير احمد علوي صاحب كي علمي صلاحيتوں كے معترف تھے اور انهيں عزت كي نگاه سے ديكھتے تھے۔ شعبه اردو كي عزت و وقار بڑھانے ميں پروفيسر خواجه احمد فاروقي كے جو كارنامے هيں ان كا ذكر فريدي صاحب هميشه كرتے تھے۔ فاروقي صاحب كي نفاست پسندي، عمده كاغذ اور قلم كا استعمال، هميشه سوٹِڈبوٹڈ رهنا فريدي صاحب كو بهت پسند تھا۔ فريدي صاحب كها كرتے تھے كه آتش شاعري ميں اور فاروقي صاحب نثر ميں مرصع سازي كے قائل تھے۔
فريدي صاحب اپنے اساتذه حضرات كا ذكر خيربے حد احترام و عقيدت اور محبت سے كرتے تھے۔ ان ميں ايك اهم نام حضرت نظام فتح پوري كا هے جنهوں نے فريدي صاحب كي ابتدائي شاعري كي اصلاح فرمائي۔ فريدي صاحب آٹھويں كلاس كے طالب علم تھے تو اس وقت انهوںنے چند اشعار ٫٫سلام٬٬ كے كهے تھے جن كي اصلاح حضرت نظام فتح پوري نے كي تھي۔ ان اشعار كو ديكھ كر حضرتِ نظام فتح پوري نے پهلے هي بھانپ ليا تھا كه فريدي صاحب كے اندر بے شمار تخليقي امكانات چھپے هوے هيں۔ انگريزي كے كسي تخليق كار نے ٹھيك هي كها هے كه:
Military genius of Napolian and contemplative tendency of Lord Buddha were already manifested in their boyish pranks, sports and games. Milton in his Lost Paradise and Regain Paradise has said that child is the father of the man as morning shows the day.''
بهرحال نظامي صاحب نے فريدي صاحب كي همت افزائي كي، ان كے سينے ميں شعر و ادب كي جو چنگاري دبي هوئي تھي اسے هوا دي، ان كے اندر تخليقي شعور بيدار كيا۔ فريدي صاحب نے بھي شعرو ادب كے جوهر كو بروئے كار لانے كي مسلسل كوشش كي اور پيچھے مڑ كر كبھي نهيں ديكھا۔ شايد علاّمه اقبال نے فارسي كا يه شعر فريدي صاحب كے ليے كها تھا كه:
زشرر ستاره جوئم زستاره آفتابے
سرِ منزلے ندارم كه بميرم از قرارے
حضرتِ نظام فتح پوري كے علاوه فريدي صاحب اپنے هائي اسكول كے استاد مولوي سيد حامد علي كا بھي ذكر كرتے تھے جنهوںنے اردو اور فارسي كي غزليں انهيں پڑھائيں اور ان كي ابتدائي غزلوں كي نوك پلك درست كي۔
آگره كالج كے اساتذه حضرات ميں محمد طاهر فاروقي كا ذكر فريدي صاحب هميشه كيا كرتے تھے۔ محمد طاهر فاروقي، فريدي صاحب كے مشفق، مهربان اور همدرد استاد هونے كے ساتھ ساتھ ان كے سر پر ست بھي تھے۔ فريدي صاحب كو انهوں نے تعليم كے ساتھ اچھي تربيت بھي دي۔ فريدي صاحب تعليم كے ساتھ ساتھ تربيت كي اهميت پر بھي زور ديتے تھے۔ فريدي صاحب كها كرتے تھے كه پراني قدريں ختم هوتي جا رهي هيں اسكول اور كالجوں كے ماحول مجروح هوتے جا رهے هيں كيونكه آج كل كے طالب علم تعليم تو حاصل كرليتے هيں ليكن تربيت حاصل نهيں كر پاتے ميرے زمانه طالب علمي ميں طلبه تعليم كے ساتھ ساتھ تربيت بھي حاصل كرتے تھے ليكن اب صورتِ حال يه هے كه٫٫وه اثر كهن نه تري حكايتِ سوز ميں نه مري حديثِ گداز ميںهے۔٬٬
فريدي صاحب كو آگره شهر، آگرے كا تاج محل اور آگرے كے تمام شعرا كرام بے حد پسند تھے۔ اپنے طالب علمي كے زمانے كے ادبي اور شعري سر گرميوں كا ذكروه بار بار كياكرتے تھے۔ وهاں كي شعري محفلوں كو رونق بخشنے والے مقامي شعرا ميں سيماب اكبر آبادي، اخضر اكبر آبادي، ميكش اكبرآبادي، اعجاز صديقي، رعنا اكبر آبادي اور صبا اكبر آبادي—باهر كے شعرا ميں فراق گوركھ پوري ،جوش مليح آبادي، جگر مراد آبادي، قمر بدايوني،حفيظ جالندھري، ساغر نظامي، روش صديقي، مجاز لكھنوي، جاں نثار اختر نشور واحدي، معين احسن جذبي، راز مراد آبادي اور شكيل بدايوني وغيره خاص تھے جن كا ذكر كرتے هوے فريدي صاحب فخر محسوس كرتے تھے ان شعرا كرام سے وابسته بے شمار ياديں، قصے، كهانياں اور ان كي نجي زندگي كے حالات فريدي صاحب كي ياداشت ميں محفوظ تھے جن كا ذكر وه اكثر كيا كرتے تھے۔
علي گڑھ يونيورسيٹي سے فريدي صاحب كا گهرا تعلق رها هے۔ انهوں نے وهيں سے اعلٰي تعليم حاصل كي تھي۔ علي گڑھ كے شعبه اردو كے اساتذه حضرات پروفيسر رشيد احمد صديقي، مسعود حسن خاں، ڈاكٹر عزيز، سيد ظهير الدين علوي كے علاوه دوسرے شعبه كے اساتذه حضرات ڈاكٹر هادي حسن، مولانا ضيائ احمد بدايوني، محمد حبيب، خواجه منظور حسين، بابر مرزا اور مولانا عبدالعزيز ميمن وغيره كا ذكروه هميشه كرتے رهتے تھے۔ ان اساتذه حضرات كي صحبت سے استفاده كرنے كا انهيں فخر تھا۔ان اساتذه حضرات ميں سب سے زياده پروفيسر رشيد احمد صديقي سے متاثر هوئے تھے اور مستفيد بھي۔ پروفيسر رشيد احمد صديقي سے ان كي پهلي ملاقات كب اور كن حالات ميں هوئي تھي، پروفيسر رشيد احمد صديقي سے ان كي قربت كي انتها كيا تھي، رشيد صاحب اور ان كے تعلقات كو ديكھ كردوسرے حضرات كيسے رشك كرتے تھے۔ رشك كرنے والے حضرات ميں پروفيسر ظهير احمد صديقي بھي تھے۔تبھي سے پروفيسر ظهير احمد صديقي فريدي صاحب كو اپنا بڑا بھائي ماننے لگے تھے۔ دهلي ميں بھي يه رشته آخر آخر تك برقرار رها۔ پروفيسر رشيد احمد صديقي كي پوري شخصيت، ان كي اهميت،نثر نگاري اور تنقيد نگاري كے علاوه لكچرس ميں جملوں كي حسنِ ادائيگي اور ان كے ايك ايك جملے كي ادبي اهميت پر گھنٹوں گفتگو كرتے تھے۔ فريدي صاحب كها كرتے تھے كه رشيد صاحب كا هر جمله تشريح طلب هوتا هے۔ان كے هر جملوںكو رُك رُك كر اور سمجھ سمجھ كر پڑھنے سے لطف آتا هے۔ كسي بھي موضوع يا مدعا كي وضاحت زياده سے زياده لفظوں كے سهارے كرنا آسان كام هے ليكن كم لفظوں ميں اس كي وضاحت كرنا بهت مشكل كام هے۔ يه آرٹ بھي هے اور اس آرٹ كا بهترين نمونه رشيد صاحب كے مضامين هيں۔ فريدي صاحب كها كرتے تھے كه رشيد احمد صديقي كي كتاب ٫٫غالب كي شخصيت اور شاعري٬٬ كے بعض جملے چھوٹے چھوٹے مضامين كے برابر هيں۔ رشيد صاحب كے مزاج ميں طنزو مزاح كا جولطيف حسن هے اس كا جواب نهيں۔ نيز رشيد احمد صديقي كي طبيعت ميں موجود طنزو مزاح كے جو هر كا بر محل استعمال اور سا معين كے ردِّ عمل وغيره سے متعلق بے شمار قصّے اور لطيفے فريدي صاحب سنايا كرتے تھے۔ رشيد احمد صديقي كے وسيلے سے فريدي صاحب كا تعلق سابق صدر جمهور يه ڈاكٹر ذاكر حسين سے بھي تھا۔ رشيد صاحب ذاكر صاحب كے قريبي دوستوں ميں سے تھے اور دونوں ايك دوسرے سے بے حد محبت كرتے تھے۔ رشيدصاحب كا راشٹر پتي بھون ميں آنا جانا لگا رهتا تھا۔ فريدي صاحب كبھي رشيد صاحب كے همراه، كبھي ان كا خط اور پيغام لے كر راشٹر پتي بھون جايا كرتے تھے اور كبھي كبھي وهاں سے انهيںطلب بھي كيا جاتا تھا۔ فريدي صاحب ان تمام واقعات كا ذكر وقتاً فوقتاً كيا كرتے تھے حالاں كه اس طرح كے تعلقات كو مشتهر كرنا ان كا مزاج نهيں تھا۔ سابق صدر جمهور يه ڈاكٹر ذاكر حسين كے عادات و اطوار، ان كے پسند و ناپسند كا بھي فريدي صاحب نے مشاهده كيا تھا نيز هندو ستان كے طرز تعليم كے تئيں ذاكر صاحب كا نظر يه كيا تھا، معاشرے ميں وه كس طرح كي تبديلي چاهتے تھے ان پهلوئوںپر فريدي صاحب هميشه باتيں كرتے تھے۔ اس كے علاوه راشٹر پتي بھون كے كمرے، هال، اندروني ڈيكوريشن اور صدرهائوس كے اطراف كے باغات، خاص طورپرمغل گارڈن اور مغل گارڈن ميں موجود گلاب كے پھولوں كے اقسام اور پھر ذاكر صاحب نے ان پھولوں كے پودوں كو كن كن ملكوں سے منگوايا تھا۔ اُن پھولوں اورديسي گلاب كے پھولوں ميں رنگ، خوشبو اور سائز ميں كيا فرق هے۔ مغل گارڈن كي تاريخ نيز هندو ستان كے ان تمام باغوں پر تبصره كرتے تھے جنهيں مغلوں نے تفريح گاه كے طور پر بنايا تھا۔اور ان باغوں كا Concept ايران سے حاصل كيا تھا۔فريدي صاحب كي ان تمام باتوں كو سن كر ايسا لگتا تھا كه ان كے حالات اگر سازگار هوتے اوروه ان تمام باتوں كو لكھ ڈالتے تو يقينا وه اپنے دور كے مولانا ابو الكلام آزاد هوتے اور ان كي نثرغبارِ خاطر كي طرح مشهورهوتي۔
فريدي صاحب كے علمي و ادبي سفر ميں كلائي مِكس كا دور وه تھا جب وه علي گڈھ ميں زير تعليم تھے اور وهاں كي تمام ادبي وشعري سرگرميوں ميں نه صرف شريك هوتے بلكه اس سے مستفيد اور محظوظ بھي هو تے ۔ فريدي صاحب كها كرتے تھے كه وه دور ان كي زندگي كاسنهره دور تھا ۔ علي گڈھ يونيورسٹي كي تهذيب، وهاں كي پرورده عظيم شخصيتيں، علي گڈھ سے وابسته هزاروں قصّے كها نياں، واقعات و حادثات اور لطيفے مزے لے لے كر سنايا كرتے تھے۔ سر سيد احمد خان سے انهيں جذباتي لگائو تھا۔ سر سيد احمد خان كے كارناموں، مسلم قوم كے تئيں ان كا خلوص، مسلمانوں كے علمي، معاشي اور سماجي حالات بهتر بنانے كا جذبه وغيره موضوعات پر گفتگو كرتے وقت وه جذباتي هو جاتے تھے اور بعض دفعه رونے لگتے تھے۔
فريدي صاحب كو اپنا بچپن بهت پيارا لگتا تھا۔ وه اپنے بچپن كے زمانے كو هميشه ياد كرتے تھے۔ اگر ان كا بس چلتا تو ايك بار اُسي زمانے ميں واپس چلے جاتے۔ ان كے والد محترم ملازمت كے دوران ماٹ تحصيل ميں رجسٹرارتھے اور وهيں رهتے تھے آلودگي سے پاك فضااور گائوں كا ماحول انهيں اچھا لگتا تھا۔ گائوں ميں مٹّي سے بنے گھر، مٹّي كي صراحي اور مٹكے كا ٹھنڈا اور ميٹھا پاني، مٹي كے برتنوں ميں جمے هوے دهي، اور مٹي كے كُلّھڑ ميں گرم گرم دودھ كے ذائقے كا ذكر وه ايسے كرتے تھے كه سننے والوں كو غالب كا وه مصرعه ياد آنے لگتا تھا كه:
جامِ جم سے يه مرا جامِ سفال اچھا هے
گائوں كي كھُلي هوئي فضا ميں طلوع آفتاب و غروبِ آفتاب كے مناظر اور شام ميں پيپل كے درختوں پر چڑيوں كا چهچهانااور رات ميں جگنوو ں كي چمچماهٹ جس كا ذكر وه اكثر كرتے تھے۔ مليح آباد كے آموں، اله آباد كے امرو دوں اور ماٹ كے خربوزوں كي تعريف ايسے كرتے تھے جيسے يه دنيا وي نهيں بلكه بهشتي پھل هوں۔ ماٹ كے علاقے كے خربوزوں كي خصوصيت بيان كرتے نهيں تھكتے تھے خاص طورپرماٹ كے ان خربوزوں كا ذكر تو وه اكثر كرتے تھے جنهيں جمنا كے كنارے ريت ميں دباديا جاتا تھا جس سے وه خربوزے ٹھنڈے هو جاتے تھے اور ان كي مٹھاس بھي بڑھ جاتي تھي۔ گائوں كي تازه ترين مختلف قسم كي سبزياں جنهيں يوريا كے بجائے گوبر كي كھاد سے اُگايا جاتا تھا ان كا ذائقه شهر كي سبزيوں كے مقابلے ميں كهيں زياده بهتر هوتا تھا۔ كھيتوں ميں دور دور تك هرے بھرے لهلهاتے هوے پودے جن پر نظر دوڑائيے تو آنكھوں ميں ٹھنڈك محسوس هوتي هے۔ كھيت كھليانوں ميں غلّوں كے ڈھير جس ميں كوئي ملاوٹ نهيں وغيره نه جانے كتني هي چيزوں كا ذكر فريدي صاحب كيا كرتے تھے۔
فريدي صاحب كے ساتھ آگره، علي گڈھ، كانپور اور لكھنو كے علاوه حيدرآباد وغيره شهروں كا ميں نے سفر كيا هے۔ فريدي صاحب سفر كي صعو بتوں سے بهت گھبراتے تھے۔ وقت سے ايك گھنٹه پهلے ريلوے اسٹيشن پهنچ جايا كرتے تھے۔ وهاں پوري طرح سستاتے تھے اور وهاں كي گھٹيا چائے بھي مزے لے لے كر پيتے تھے اور اپنے ساتھ موجود دوسرے لوگوں كو بھي پلايا كرتے تھے۔ كهتے تھے كه اسٹيشن پر چائے پينے كي عادت انهيں علي گڑھ ميں پڑي تھي۔ علي گڑھ يونيورسيٹي كے اساتذه جب باهر جاتے تھے تو انهيں الوداع كهنے ان كے شاگر بھي جايا كرتے جنهيں اسٹيشن پر چائے پلانا لازمي تھا كيوں كه وهاں كي يه روايت تھي۔ فريدي صاحب پهلے درجه اور ايركنڈيشن ڈبّوں ميں هي سفر كرتے تھے۔ سفر كے دوران اپنے همدردانه و مخلصانه سلوك اور لچھے دار گفتگو سے اپنے هم سفروں كو اپني طرف متوجه كر ليتے تھے اور ديكھتے هي ديكھتے تمام مسافر وں سے دوستوں اور شاگردوں كي طرح پيش آنے لگتے۔ ان ميں سے بعضوں كو تو دهلي آنے كي دعوت بھي دے ڈالتے تھے۔ فريدي صاحب كے ساتھ ميرا سب سے ياد گار سفر حيدر آباد كا تھا۔جهاں هم لوگ عارفي صاحب كي بڑي صاحب زادي كي شادي ميں شركت كے ليے گئے تھے۔ 1987ميں غالباً جولائي كا مهينه تھا۔ بے انتها بارش هو رهي تھي ملك كے مختلف علاقوں ميں ريلوے لائنيں بھي متاثر هوئي تھيں لهٰذا كئي ريل گاڑياں يا تو رد كر دي گئي تھيں يا ان كے راستے تبديل كر ديے گيے تھے۔ پروفيسر امير عارفي صاحب ويسے بھي فريدي صاحب كے عزيزدوستوں ميں شامل تھے اور فريدي صاحب نے شادي ميں شريك هونے كا وعده كر ليا تھا۔ لهٰذا تمام ناساز گار حالات كے باوجودهم لوگ حيدرآباد كے سفر پر نكل پڑے۔ جس ٹرين سے هم لوگ حيدررآباد جا رهے تھے راستے ميں معلوم هوا كه اس ٹرين كا بھي راسته بدل ديا گيا هے۔ لهٰذا راستے ميں كسي اسٹيشن پر رات بھر حيدرآباد جانے والے مسافروں كو ٹھهرنا پڑا۔ دوسرے دن جب كوئي دوسري ٹرين وهاں آئي تو مسافروں كو راحت ملي۔ مجھے ڈر تھا كه فريدي صاحب كي كهيں طبيعت نه خراب هو جائے ليكن ان كے چهرے پر وهي بشاشت تھي اوروه اس هنگامي حالات ميں بھي غزل كے اشعار كي تخليق ميں محو تھے۔ بهر حال كسي طرح دوسرے دن صبح هم لوگ حيدر آباد پهنچے اور شروع كے دو دن شادي كي گهما گهمي اور مختلف رسوم كي ادائيگي كا نظاره كرتے رهے ليكن تيسرے دن راج بهادر گوڑ صاحب كي كسي رشته دار خاتون كي رهنمائي ميں تاريخي شهر حيدر آباد كي سير كرنے كے ليے نكلے۔ چار مينار، قلعه اور خاص طور پر وه پل جسے قلي قطب شاه كے والد نے اپنے بيٹے اور ولي عهد سلطنت قلي قطب شاه كے ليے بنوايا تھا۔ جس سے گزر كر قلي قطب شاه اپني محبوبه بھاگمتي سے ملنے جايا كرتا ورنه اس پل كے بننے سے پهلے پاني سے بھرے هوئے دريا ميں قلي قطب شاه اپنے گھوڑے دوڑا ديتا تھا۔ فريدي صاحب نے وهاں كي پراني عمارتوں اور سالار جنگ ميوزيم وغيره كو نه صرف ديكھا بلكه ان ادوار كي پوري تاريخ بھي بتائي۔ سالار جنگ ميوزيم كو ديكھ بهت متاثر هوئے۔ كهنے لگے كه حيدرآباد كا دوباره سفر كرنا پڑے گا كيوںكه اس ميوزيم كو ايك يا دو دِنوں ميں ديكھنا ممكن نهيں هے۔ اسے ديكھنے كے ليے كم سے كم ايك هفته چاهيے ليكن وقت اور حالات نے انهيں وهاں دوباره جانے كا موقع نهيں ديا۔ فريدي صاحب كا تعلق صوفياے كرام سے تھا حضرت سليم چشتي ان كے جدتھے اور ان كے وسيلے سے ان كا رشته با با فريد گنج شكر تك پهنچتاهے۔ يه والد كا شجره هے اور والده كي طرف سے فريدي صاحب مولانا احمد حسن صاحب محدث كانپوري، جو اپنے زمانے كے جيد عالم اور محدث تھے، فريدي صاحب كے حقيقي نانا تھے جن كي شهرت هندوستان سے سر زمينِ عرب تك تھي بڑے بڑے بزرگانِ دين اور علمائ حضرات ان كے سامنے دست بسته كھڑے رهتے تھے۔ فريدي صاحب اگر چاهتے توفتح پو ر سيكري ميں واقع حضرت سليم چشتي كے جانشين بن سكتے تھے اور پيري مر يدي كا سلسله به طرزِ ا حسن قائم كر سكتے تھے۔ ليكن فريدي صاحب كي ذهني پرورش هي اس ڈھنگ سے هوئي تھي كه وه كبھي بھي اپنے شجرے كي تشهير كر كے لوگوں پر رعب نهيں ڈالنا چاهتے تھے۔ بار بار ميں خود ان كے ساتھ محبوب الٰهي حضرت نظام الدين اوليا اور خواجه بختيار كاكي كے درگاهوں پر حاضر هوا هوں اور وهاں دور دور سے آنے والے لوگوں كو جب يه معلوم هوتا تھا كه فريدي صاحب كا تعلق بابا فريد گنج شكر اور شيخ سليم چشتي كے خاندان سے هے تو لوگ فرطِ عقيدت ميں ان كے هاتھ چومنا چاهتے اور نذر انے پيش كرنا چاهتے جسے فريدي صاحب بهت محبت سے ٹال ديا كرتے تھے۔ ايك دفعه مكھرجي نگر سے چند مذهبي سردار ان كے گھر تشريف لائے اور ان سے گزارش كي كه وه مكھرجي نگر كے گرو دوارے ميں بابا فريد كي تعليمات پر ايك ليكچر ديں واضح رهے كه بابا فريد كي تعليمات كا ذكر گرو گرنتھ صاحب ميں جگه جگه كيا گيا هے۔ فريدي صاحب گرو دوارے ميں جانے كے حق ميں نه تھے ليكن يه سوچ كر وهاں چلے گئے كه كسي كا دل توڑنا مناسب نهںهے اور خاص كر جهاں مذهبي عقيدت كا سوال هو۔ گرودوارے ميں پهنچ كر انھوںنے جو عالمانه تقرير كي اس نے ايك سماں باندھ ديا۔ لوگ فرطِ عقيدت سے انھيں نذرانے دينے لگے جسے انهوں نے اسي وقت گوردواره كو دے ديا اور وه شاليں جو انهيں وهاں دي گئي تھيں دروازے پر كھڑے غريبوں كو پيش كر ديں۔ اس واقعے سے فريدي صاحب كي ذهنيت اور تربيت كا اندازه هوتا هے۔فريدي صاحب صوفيانه عقائد اور تعليمات كے متعلق اكثر اپنے خيالات كااظهار كرتے تھے۔ كهتے تھے كه اسلام كو پھيلانے ميں انهيں صوفيائے كرام كا سب سے زياده هاتھ هے ليكن آج كل خانقا هوں كا ماحول خراب هو چكا هے۔ صوفيائے كرام كے نام كو بيچ كر پيسے كمائے جا رهے هيں اور عقيدت مندوں كا استحصال كيا جا رها هے جس سے ايك عام انسان اسلام سے دور هوتا جا رها هے۔
فريدي صاحب ١٩٩١ئ ميں دهلي يونيورسيٹي كے شعبه اُردو كي ملازمت سے سبكدوش هونے كے بعد ٢٩٩١ئ ميں كانپور چلے گيے۔ ان كے كانپور جانے سے پهلے ميرا زياده تر وقت ان كے گھر پر ان كے ساتھ گزرتا تھا۔ رفته رفته ميرے اور ان كے تعلقات استاد اور شاگرد كے دائرے كو توڑ كر باپ اور بيٹے كے مانند هو گئے تھے لهٰذا ان كے يهاں سے چلے جانے كے بعد بھي ميں ذهني طور پر ان سے كبھي جدا نهيں هوا۔خط و كتابت اور فون كے ذريعه هميشه رابطه قائم رها۔ مختلف مسائل اور موضوعات پر ان سے تبادله خيال هوتا رها۔ موقع مِلتے هي ميں ان كي خدمت ميںحاضر هو جاتا تھا۔ ٣٩٩١ئ ميں دل كا دورا پڑنے سے ميري ماں كا اچانك انتقال هو گيا۔فريدي صاحب اس سانحے سے بے حد متاثر هوئے۔ انهوںنے اقبال كي نظم ٫٫والده مرحومه كي ياد ميں٬٬ كے ايك مصرع سے ميري والده مرحومه كي تاريخ وفات نكالي۔
درد بن كر ٫٫نور٬٬ چھلكا مصرع تاريخ سے
٫٫يادسے تيري دِل درد آشنا معمور هے٬٬
فريدي صاحب نے اس وقت مجھے خط لكھ كر كانپور بلايا اور ميں ان كے ساتھ لگاتا ر دو مهينے تك رها۔ فريدي صاحب سے ميري آخري ملاقات اپريل 2001ميں هوئي تھي۔ اس وقت وه كافي كمزور هو گيے تھے۔ چلنے پھرنے سے بھي معذور هو گيے تھے ليكن دماغي اور ذهني طور پر بالكل ٹھيك تھے۔ انهوں نے ميرتقي مير كے ايك هم عصر مگر گم نام شاعر محمد امان نثار كے ديوان كي تدوين كا كام ميرے ذمه كيا اور اس موضوع پر كام كرنے كے سلسلے ميں ايك پلان بنا كر مجھے ديا۔ساتھ هي انهوں نے محمد امان نثار كے ديوان كے سلسله ميں ايك تعارفي مضمون لكھ كر ديا جس كے آخر ميں انهوں نے يه اعلان كيا هے كه محمد امان نثار كے ديوان كي تدوين كا كام ميرے شاگرد ڈاكٹر شيخ عقيل احمد كر رهے هيں جو جلد هي منظرِ عام پر آجائے گا۔ فريدي صاحب كا يه مضمون ايوانِ اردو ميںشائع هونے والا هے۔ اس كے علاوه انهوں نے اپني ايك تازه غزل سنائي جسے ميں نے فوراً لكھ ليااور شائع كرانے كے ليے ايوانِ اردو كو دے ديا۔ اس غزل كا مقطع فريدي صاحب كي زندگي كي آخري خواهش كاترجمان هے جس ميں مايوسي كا احساس بھي هے۔
كوئي دستك، كوئي آهٹ، كوئي جھونكا، كوئي خوشبو
فريدي دل كو بس زنده اسي ارماں ميں ركھتے هيں
فريدي صاحب كے انتقال كے ايك هفته پهلے ميں نے انهيں اپني كتاب ٫٫فنِ تضمين نگاري —تنقيد وتجزيه٬٬ كي تين كا پياں بھيجي تھيں اس كے ساتھ ايك خط بھي لكھا تھا۔ مجھے اپنے خط كا جواب اور اپني كتاب پر ان كے تاثرات كا انتظار تھا كه اچانك ان كے انتقال كي خبر ملي۔ يه منحوس خبرميرے ليے كتني جانكاه تھي اس كا اندازه صرف خدا كوهوسكتا هے۔ميں بھاگ كركانپور پهنچا۔ليكن اب كيا تھا سب كچھ ختم هوچكاتھا۔وه شجرسايه دار جس كے سائے ميں ميں نے اپني زندگي كے بهترين شب وروز گذارے تھے جڑسے اُكھڑ چكا تھا۔مجھے اس وقت احساس هواكه اب ميں بے آسمان هوگيا شفقت ومحبت كا وه مينار نور يوں بجھ گيا كه بس خدا انهيںجنت الفردوس اور ان كے لواحقين كو صبر جميل عطا كرے۔ آمين۔
آسماں تيري لحد پرشبنم افشاني كرے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں