منگل، 7 فروری، 2012

منٹوکے افسانوی اُسلوب کاجمالیاتی پہلو

منٹو کا اُسلوب دراصل افسانوی ادب کا وہ روشن اُسلوب ہے جو قاری کے شعور واحساس کو متاثر کرتاہے اور بصیرت بھی عطا کرتا ہے۔ان کی افسانوی اور فنکارانہ بصیرت نے ان کے اُسلوب کو خلق کیا ہے۔منٹوکی زبان وبیان کے ذریعہ ہندوستان کی سماجی صورتِ حال اورتہذیبی وحدت کا پتہ چلتا ہے۔ان کے اُسلوب میں ان کی شخصیت کے کئی پہلوؤں کوشدیدطورپر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان کے کرداروں کے تجربے ان کااپنا تجربہ بن گیا ہے۔ مختلف موضوعات پرمشتمل منٹو کے افسانوں کے فنکارانہ پیشکش کرداروں کے جذبات واحساسات اور ذہنی کشمکش کے جوہر کو جس طرح نمایاں کرتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منٹونے کس طرح تمام واقعات وحادثات اورکرداروں کے اعمال کواپنے اندرجذب کرلیاہے۔ان کے افسانوں کے مختلف موضوعات ، مواد اور بعض پیچیدہ اورنازک issues کو سمجھنے میں ویژن کا کارنامہ بھی کم اہم نہیں ہے۔ یہ منٹو کے ویژن ہی کا کرشمہ ہے کہ افسا نوں کے کئی بے معنی الفاظ اورجملوں کے ذریعہ نہ جانے کتنے بامعنی مفاہیم اور سچائیوں تک پہنچنے کی کامیاب کوشش ملتی ہے۔ کرداروں کے جذبات کے اظہار میں توازن ہے۔جنسی تسکین اورجنسی تلذزحاصل کرنے کے دوران عورت کے بدن سے نکلنے والی خوشبوکے ذکر سے قاری کے احساس و شعور اور اس کے پورے وجود کو معطر کرنے کا جو اسلوب منٹو نے خلق کیا ہے وہ کسی دوسرے افسانہ نگار کے بس کی بات نہیں ہے۔مختلف نوعیت کے جنسی تجربوں کے بیان میں مطابقت اور ہم آہنگی کا بھی ایک منفرد اور خوبصورت امتزاج ملتاہے۔ مختلف کرداروں کی نفسیات،حرکات وسکنات اور ان کی گفتارکے آہنگ کو منٹونے اس طرح پیش کیا ہے کہ اُسلوب کی دل کشی اور دل آویزی اور بڑھ گئی ہے۔ان کے اسلوب میں موضوع اور ہےئت کی مطابقت اور ہم آہنگی انبساط بھی عطا کرتی ہے اور انسانیت کے تئیں بیدار بھی کرتی ہے۔ منٹو کے اسلوب کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ قاری کے حواس بیدار ہونے لگتے ہیں ،وہ منٹو کی طرح سوچنے اور محسوس کرنے لگتے ہیں۔منٹو کے اسلوب میں ابلاغ کا ایک خاص حسن ہے۔افسانوں کی عبارتوں کے داخلی آہنگ نے ان کے افسانوی اسلوب میں بڑی مطابقت اور ہم آہنگی پیدا کی ہے۔افسانوں کے موضوعات اورخیالات وجذبات کی وحدت نے ان کے اسلوب کواور زیادہ موثر اور جاذب نظر بنادیا ہے۔ تمام افسانوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ان کے اسلوب کی کئی جہتیں نمایاں ہوں گی۔منٹو کے افسانوں کی نفسیاتی پیچیدگی کو آسان بنانے اور دل و دماغ میں اتارنے کے لیے ان کے اسلوب کی کئی صورتیں مزید نمایاں ہوئی ہیں۔ اسلوب کی ان جہتوں میں جو توانائی اور آہنگ ہے وہ ان کے افسانوں کے موضوعات سے گہرا رشتہ رکھتی ہیں۔

ناقدینِ منٹونے ہمیشہ ان کی شخصیت اورفن کو فحش نگاری اور حقیقت نگاری میں الجھائے رکھا جبکہ بیشترناقدینTextuality اورSexuality کے جوہرکوسمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔اس مقالے میں منٹو کو ان کے افسانوی اسلوب کے جمالیاتی پہلو کے آئینہ میں دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کیوں کہ اسلوبیات کے مروجہ اصولوں کے ذریعہ ادب کے اصل جوہریاکسی فنکار کے فن کی روح تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ ماہرین اسلوبیات کا بھی خیال ہے کہ ’’اسلوبیات کے پاس خبر ہے نظر نہیں‘‘ اسلوبیات صرف تنقیدکی مددکرتاہے لیکن اس کے پاس ادبی ذوق یاجمالیاتی ویژن نہیں ہوتا ہے۔لہٰذا منٹو کوان کے اسلوب کے خارجی پہلوؤں کے بجائے جمالیاتی پہلوؤں یعنی اسلوب بہ حیثیت تزئین کاری سے قطع نظر اس کے معنیاتی پہلوؤں اور اس کے جمال کی روشنی میں دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

منٹو کے اسلوب کی تشکیل میں ان کی مخصوص طبیعت کابھی اہم رول رہا ہے۔ مثلاّمنٹو بنیادی طور پرلاابالی اورباغی طبیعت کے انسان تھے۔نظام تعلیم اور دین ومذہب سے لاتعلقی ان کے مزاج میں تھی۔جوئے،شراب اور بدنام لوگوں کی صحبت سے انہیں خاص دلچسپی تھی۔انہوں نے اپنی نوجوانی کے حالات اور ذہنی کیفیات کے متعلق لکھا ہے:

’’یہ وہ زمانہ تھا جب میں نے آوارہ گردی شروع کردی تھی۔طبیعت ہروقت اچاٹ سی رہتی تھی۔ایک عجیب قسم کی کھدبدہروقت دماغ میں ہوتی رہتی تھی۔جی چاہتا تھا کہ جوچیزبھی سامنے آئے اسے چکھوں،خواہ وہ انتہائی درجہ کی کڑوی کیوں نہ ہو۔‘‘

شایدیہی وجہ ہے کہ منٹو نے عام روایت سے ہٹ کر اپنے بیشترافسانوں میں ایسے افراد کاا نتخاب کیا اوران کی زندگی اور مسائل کو موضوع بنا یا جوسماج کے دبے کچلے ، ناپسندیدہ اور انتہائی غلیظ قسم کے انسان تصور کیے جاتے ہیں۔ جن کے متعلق بات کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن منٹونے سماج کے سفیدپوش طبقہ کی پرواہ کیے بغیر ان کے احساسات و خیالات اور سوچ و فکر سے ہمیں متعارف کرایا اور ان کے مسائل کے متعلق ہمیں سوچنے کے لیے مجبور کیا۔ منٹو نے سماج کی بدصورتی اور پستی کی تصویر کشی کے لیے جو اسلوب اور پیرایہ بیان خلق کیا ہے وہ قاری کی شدتِ احساس کو تیز سے تیز تر کردیتا ہے اورقاری خود کو اسی ماحول کا حصہ سمجھنے لگتا ہے ۔سنسکرت جمالیات کے مطابق اسی کو ’رس ‘کہتے ہیں اور یہی تخلیقی عمل کا نقطۂ عروج بھی ہے۔ایک طوائف کی زندگی میں جو اتھل پتھل،انتشار،اضطراب ،غلاظت اورناپاکیاں ہوتی ہیں ان کی جیتی جاگتی تصویر افسانہ ’’ہتک‘‘کی مرکزی کردار ’سوگندھی‘ کا چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں بے ترتیبی کے ساتھ بکھری ہوئی چیزیں مثلاًاس کا خارش زدہ کتّا،ایک طوطے کا لٹکتا ہوا پنجرہ اوردیوارگیرپر رکھے ہوئے میکپ کے سامان ہیں جن کی تصویر منٹونے اس طرح کھینچی ہے:

’’کمرہ بہت چھوٹا تھا جس میں بے شمارچیزیں بے ترتیبی کے ساتھ بکھری ہوئی تھیں۔تین چار سوکھے سڑے چپّل پلنگ کے نیچے پڑے تھے جن کے اوپر منھ رکھ کر ایک خارش زدہ کتّا سورہا تھااور نیند میں کسی غیرمرئی چیز کا منھ چڑارہا تھا۔اس کتّے کے بال جگہ جگہ سے خارش کے باعث اڑرہے تھے، دورسے اگر کوئی اس کتّے کودیکھتا تو سمجھتا کہ پیر پونچھنے والا پراناٹاٹ دوہرا کرکے زمین پر رکھا ہے۔اس طرف چھوٹے سے دیوارگیرپرسنگارکا سامان رکھا تھا گالوں پر لگانے کی سرخی،ہوٹوں کی سرخ بتّی، پاوڈر،کنگھی اورلوہے کے پِن جووہ غالباًاپنے جوڑے میں لگایا کرتی تھی۔پاس ہی میں ایک لمبی کھونٹی کے ساتھ سبز طوطے کا پنجرہ لٹک رہا تھا،جوگردن کو اپنے پیٹھ کے بالوں میں چھپائے سورہا تھا۔پنجرہ پکے کچے امرود کے ٹکڑوں اور گلے ہوئے سنگترے کے چھلکوں سے بھرا ہوا تھا۔ان بدبودار ٹکڑوں پر چھوٹے چھوٹے کالے رنگ کے مچھریاپتنگے اُڑرہے تھے۔‘‘(ہتک(

منٹو نے سوگندھی کے کمرے کی تصویر کشی جس اسلوب اورپیرایۂ بیان میں کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منٹو نے خود بھی اس زندگی کوجیا ہے۔ویسے ایک بڑے فنکار کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ایسی زندگی جینے کے بعد ہی اس طرح کے افسانے کی تخلیق کرے۔ایک بڑا تخلیق کار تخلیقی عمل سے گذرتے وقت اپنے لیے ایک نئی دنیا، نئے کردار نیا ماحول نئے مناظر خلق کرلیتا ہے جس کے ذرّے ذرّے میں اسی کا پرتونظر آتا ہے یا جس دنیا کی مخلوق اور فضا کو اپنی تخلیقات کا موضوع بناتا ہے اس کے تمام کرداروں کے جذبات واحساسات سے اپنی روح کوہم آہنگ کرلیتا ہے اوران کے ماحول اور فضا کو اپنی آنکھوں میں ایسے بسالیتا ہے کہ کرداروں کے سانسوں کے زیروبم میں اس کی سانس کی گرمی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے بعد تخلیق کار کا جواسلوب وضع ہوتا ہے اس میں فنکارکے دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔منٹو نے طوائفو ں کے کردار،ان کے جذبات واحساسات،ان کی زندگی اور ان کے ماحول کو اپنے اندر جذب کرکے جواسلوب خلق کیا ہے اس میں طوائفوں کی زندگی کی غلاظت،پستی اورتاریکی کی منظر کشی فطری معلوم ہوتی ہے اورایسامحسوس ہوتا ہے کہ طوائفوں کی دنیا کے تمام کرداروں کے سینوں میں منٹو کا ہی دل دھڑک رہا ہے ،ان کے رگوں میں منٹو کاہی خون دوڑرہا ہے اور ان کے جذبات واحساسات میں منٹو کے جذبات واحساسات کاعکس نظرآتا ہے۔منٹو کے قاری بھی خود کو اس دنیا سے قریب ترمحسوس کرنے لگتے ہیں اور ان کے غم میں شریک ہوجاتے ہیں۔یہی منٹوکے اسلوب کی جادوگری کاکمال ہے۔پروفیسر شکیل الرحمٰن نے منٹوکے پیرایۂ بیان اور اسلوب پر تبصرہ کرتے ہوئے بجا لکھاہے:

’’منٹو کے تخلیقی عمل کے ہیجان انگیز بہاؤ سے گہرائی ابھرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ لگتا ہے ’’گہرائی‘‘ آہستہ آہستہ اوپر آرہی ہے، ان کے اکثر افسانوں میں ’’گہرائی‘‘ کے اوپر آنے کا منظر ملتا ہے، تاریکی کی روح یا آتما کو تخلیقی فنکار جوہر اور جلوہ بنا دیتا ہے، تاریکی کے اندر جو حسن نظر آتا ہے وہ زندگی کی کئی جہتوں سے آشنا کرکے آسودگی حاصل کرنے کے لیے اکساتا ہے۔ ہم گہرائی کے جمال سے محظوظ ہوتے ہیں، ’’گہرائی‘‘ سے ایک رشتہ قائم ہوجاتا ہے، ہم گہرائی سے پیار کرنے لگتے ہیں، جتنا بھی تکلیف دہ منظر ہو، جتنی بھی اداسی اور گہری اداسی ہو، فنکار کا تخلیقی ذہن ایسے منظر اور اداسی کو روحانی کپکپی (Spiritual trembling) میں تبدیل کردیتا ہے اور ہم باطنی سطح پر تخلیق کے حسن کو پالیتے ہیں۔ ‘‘ (منٹو شناسی، ص۔15(

فکشن کے بیشتر ناقدین کاخیال ہے کہ کرشن چند کے افسانوں میں جورومانی اسلوب پایاجاتاہے وہ منٹو کے اسلوب میں موجود نہیں ہے۔لیکن ناقدین شایدیہ بھول جاتے ہیں کہ کرشن چند کے بیشترافسانے کشمیر کی حسین وادیوں کے پس منظرمیں لکھے گئے ہیں جبکہ منٹوکا محبوب ترین موضو ع طوائفوں کی زندگی ، ان کی زندگی کی پستی ،تاریکیاں اوران کے مسائل رہے ہیں۔پھربھی ان کے بعض افسانوں اورتحریروں میں فطرت کے حسین مناظرکی بھی تصویرکشی ملتی ہے۔منٹو نے اپنی کہانیوں ، کرداروں اور ماحول کی مناسبت سے خوبصورت اور پُرلطف فضا اورقدرت کے حسین مناظر کواپنے اندرجذب کرکے سحرانگیزاسلوب خلق کیاہے۔منٹو کے ایسے اسلوب کودیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسلوب اس منٹو کا نہیں ہو سکتا جس نے’’ ہتک‘‘ کی غلاظت اور ’’ٹوبا ٹیک سنگھ‘‘کے پاگلوں کی نفسیاتی کشمکش کی تصویر کھینچی ہے۔دراصل بڑافنکار جب کسی خاص ماحول یا فضا کی تصویر کی تشکیل کرتا ہے تو اس میں زندگی کی روح پھونک دیتا ہے اوراس میں اس طرح حرکت پیدا کردیتا ہے کہ قاری کے سامنے تمام مناظر رقص کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔ان کے مختلف افسانوں کے مندرجہ ذیل اقتباسات ملاحظہ کیجئے۔

’’جب طلوع ہوتے ہوئے سورج کی طلائی کرنیں چیرکے دراز درختوں سے چھن چھن کر ہمارے پاس والے نالے کے خشم آلود پانی سے اٹکھیلیاں کررہی ہوتیں اورآس پاس کی جھاڑیوں میں ننھے ننھے پرندے اپنے گلے پھلاپھلاکرچیخ رہے ہوتے۔یوں کہیے کہ قدرت کواپنے خواب سے بیدارہوتادیکھتے تھے۔صبح کی ہلکی پھلکی ہوا میں شبنم آلودسبزجھاڑیوں کی دلنوازسرسراہٹ، نالے میں سنگریزوں سے کھیلتے ہوئے کف آلود پانی کاشوراوربرسات کے پانی میں بھیگی ہوئی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو چند ایسی چیزیں تھیں جو ہمارے سنگین سینوں میں ایک ایسی لطافت پیداکردیتی تھیں جوزندگی کے اس دوزخ میں ہمیں بہشت کے خواب دکھلانے لگتیں۔‘‘(شغل(

’’دوربہت دور جہاں سمندر اور آسمان گھل مل رہے تھے،بڑی بڑی لہریں آہستہ آہستہ اٹھ رہی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا ایک بہت بڑا گدلے رنگ کا قالین جسے ادھرادھر سے سمیٹا جا رہا ہے۔ساحل کے سب قمقمے روشن تھے جن کا عکس کنارے کے لرزاں پانی پر کپکپاتی ہوئی موٹی موٹی لکیروں کی صورت میں جگہ جگہ رینگ رہا تھا۔میرے پاس پتھریلی دیوار کے نیچے کئی کشتیوں کے لپٹے ہوئے بادبان اوربانس ہولے ہولے حرکت کررہے تھے۔سمندر کی لہروں اور تماشائیوں کی آواز ایک گنگناہٹ بن کر فضامیں گھلی ہوئی تھی۔‘‘(’بانجھ(

منٹونے الفاظ کی آرائش یازیبائش کے ظاہری جمال وجلال پر جتنی توجہہ دی ہے اس سے کہیں زیادہ توجہہ زبان کی امتیازی کیفیت پردی ہے اور اس کے پوشیدہ امکانات کوبروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ اس کی بہترین مثال افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ہے جو تقسیم ہند کا المیہ ہے جس میں ان کے اسلوب نے اسے نفسیاتی احساس میں تبدیل کر دیا ہے۔یہ ایک غیرمعمولی افسانہ ہے جو ہماری تاریخی، سماجی، تہذیبی اور نفسیاتی عوامل کے قصے کی ایک معنی خیز استعارہ بن چکاہے۔ منٹو نے اس افسانہ کے مرکزی کردار بسن سنگھ کی ذہنی کیفیت جس اسلوب اور پیرایۂ بیان میں پیش کی ہے اس سے قاری تڑپ کررہ جاتا ہے اور وہ بسن سنگھ کی ذہنی کیفیت کو اسی طرح محسوس کرنے لگتا ہے جس طرح منٹو نے محسوس کیا تھا :

’’اوپڑی گڑ گڑدی انیکس دی بے دھیان ونگ دی وال آف دی لالٹین‘‘پھر بعد میں ’’اوپڑی گڑگڑدی انیکسی دی بے دھیان ونگ دی وال آف دی پاکستان گورنمنٹ‘‘

ان جملوں کی کیفیت کو صرف محسوس کیا جا سکتاہے حرف والفاظ کی ترتیب سے اس کے حسن وخوبی کااندازہ نہیں لگایاجاسکتا ہے۔ بشن سنگھ کے یہ بے معنی جملے صرف اس کی ذہنی کیفیت کا آئینہ نہیں ہیں بلکہ منٹو کی ذہنی کرب اور کیفیت کے بھی ترجمان ہیں۔اس افسانہ میں منٹو نے انکشاف ذات کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔

منٹوایک فطری فنکارتھے۔فطری تخلیق کار کاکمال یہ ہے کہ وہ جس چیزکو دیکھتاہے اسے بہت غورسے دیکھتاہے اوراس سے محبت کرنے لگتاہے۔اسے اپنی زندگی کا حصہ بنالیتا ہے۔منٹو نے بھی جس موضوع پرلکھااسے پہلے اپنے دل کی گہرائیوں میں اتارلیا۔وہ اپنے کرداروں کواپنے رگ وپے میں پیوست کرلیا۔اسی لیے ان کے کرداروں میں ان کے ہی دل کی ڈھڑکن سنائی دیتی ہے۔ منٹو نے کئی افسانوں میں اپنے کرداروں کی ذہنی کرب ، ذہنی اور جذباتی تصادم کی خوبصورت تصویریں پیش کی ہیں۔ان افسانوں میں ’ہتک‘کا مرکزی کردار’سوگندھی ‘قابل ذکرہے۔سوگندھی کوایک سیٹھ کے ذریعہ ٹھکرادیئے جانے کے بعدجب اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ اس کی ’ہتک ‘یعنی بے عزتی ہوئی ہے تووہ تلملاکررہ جاتی ہے اور اس پرایک عجیب وغریب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ منٹونے اس کی ذلت آمیز کیفیت ،ذہنی کرب اورردِّعمل کے اظہار کے لیے جو اسلوب خلق کیاہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہتک سوگندھی کی نہیں ،منٹو کی ہوئی ہے :

’’سوگندھی سوچ رہی تھی اور اس کے پیر کے انگوٹھے سے لے کر سر کی چوٹی تک گرم لہریں دوڑ رہی تھیں، اس کو کبھی اپنے آپ پر غصہ آتا تھا اور کبھی رام دلال پر جس نے رات کے دو بجے اسے بے آرام کیا لیکن فوراً ہی دونوں کو بے قصور پاکر وہ سیٹھ کا خیال کرتی تھی، اس خیال کے آتے ہی اس کی آنکھیں، اس کے کان، اس کی بانہیں، اس کی ٹانگیں، اس کا سب کچھ مڑتا تھا کہ اس سیٹھ کو کہیں دیکھ پائے، اس کے اندر یہ خواہش بڑی شدت سے پیدا ہورہی تھی کہ جو کچھ ہوچکا ہے ایک بار پھر ہو، صرف ایک بار151 وہ ہولے ہولے موٹر کی طرف بڑھے، موٹر کے اندر سے ایک ہاتھ باہر نکالے اور اس کے چہرے پر روشنی پھینکے۔ ’’اونہہ‘‘ کی آواز آئے اور وہ سوگندھی اندھا دھند اپنے پنجوں سے اس کا منھ نوچنا شروع کردے، وحشی بلی کی طرح جھپٹے اور151 اور اپنی انگلیوں کے سارے ناخن جو اس نے موجودہ فیشن کے مطابق بڑھا رکھے تھے اس سیٹھ کے گالوں میں گاڑ دے، بالوں سے پکڑ کر اسے باہر گھسیٹ لے اور دھڑادھڑ مکے مارنا شروع کردے اور جب تھک جائے151 جب تھک جائے تو رونا شروع کردے۔‘‘(ہتک(

اس عبارت میں منٹوکے جارحانہ اسلوب نے سیدھی سادی سوگندھی کو ایک وحشی بلّی بنادیاہے ۔

منٹو کا اسلوب بظاہرسادہ معلوم ہوتاہے لیکن بعض افسانوں میں طنزکی نشتریت بھی پائی جاتی ہے۔مثال کے طورپرتقسیم ہند کے موضوع پرلکھا گیا افسانہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ میں مذہب کے نام پر تقسیم ہندکے دوررس اثرات اور مسائل کے مدنظر منٹونے شدیدردِّعمل کااظہار کیا ہے۔افسانے کوپڑھ کرمعلوم ہوتا ہے کہ منٹوتقسیم ہند کے شدیدمخالف تھے اورعجیب وغریب کرب محسوس کررہے تھے۔منٹو نے اپنے ذہنی اذیت کے اظہار کے لیے ایسے کرداروں کوخلق کیاجو پاگل ہیں اور لاہور کے جیل میں بند ہیں۔ تقسیم ہند کے کرب کے اظہار اورپاگلوں کی گفتگو کے لیے جو طنزیہ پیرابیان یااسلوب اختیار کیا ہے اس کی نشتریت سے اس دور کے نہ صرف رہنمابلکہ قاری بھی تڑپ کر رہ جاتے ہیں۔منٹوکے طنزیہ اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں طنزیہ نثر کی تخلیق میں بلا کی قدرت حاصل تھی۔طنزیہ ادب کی اہمیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے سنسکرت اچاریوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ ادب، ادب کہلانے کامستحق نہیں ہے جس میں طنزکی نشتریت نہ ہو۔مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کیجئے۔

’’ایک مسلمان پاگل جوبارہ برس سے ہرروز باقائدگی کے ساتھ ’زمیندار‘پڑھتا تھا اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا’’مولوی صاحب،یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟تواس نے بڑے غوروفکر کے بعد جواب دیا۔’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں ۔‘‘یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہوگیا۔‘‘۔۔۔ ’’وہ خود اسی الجھاو میں گرفتار ہوجاتے تھے کہ سیال کوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھاپراب سناہے کہ پاکستان میں ہے۔کیاپتہ کہ لاہور جواب پاکستان میں ہے ،کب ہندوستان میں چلاجائے گایاساراہندوستان ہی پاکستان بن جائے گا۔اوریہ بھی کون سینے پرہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائب نہیں ہوجائیں گے۔(ٹوباٹیک سنگھ (

منٹونے پاکستان کوہندوستان کے ایک ایسے خطہ سے تعبیرکیاہے جہاں استرے بنتے ہیں ۔منٹو کایہ بیان پاکستان کے وجودپرگہراطنزہے۔منٹو نے تقسیم کے دوررس اثرات پراظہارخیال کرتے ہوئے جس طرح دونوں ملکوں کے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اورپاگلوں کی زبان سے یہ کہہ کر کہ’’سیال کوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھاپراب سناہے کہ پاکستان میں ہے۔کیاپتہ کہ لاہور جواب پاکستان میں ہے ،کب ہندوستان میں چلاجائے گایاساراہندوستان ہی پاکستان بن جائے گا۔اوریہ بھی کون سینے پرہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائب نہیں ہوجائیں گے‘‘ کہراطنزکیاہے۔یہی منٹو کا منفرداسلوب ہے جسے دورسے پہچانا جاسکتا ہے۔

جنس منٹوکاپسندیدہ موضوع رہا ہے کیوں کہ یہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ بقول شکیل الرحمٰن ’’ہرمرد کے اندر عورت ہے اور ہر عورت کے اندر مرد ،یہ دونوں حقیقتیں ایک دوسرے سے اس وقت ملتی ہیں جب یوگ سے انہیں بیدار کیاجاتا ہے‘‘۔سیکس جمالیاتی انبساط وآسودگی کاسب سے بڑاذریعہ بھی ہے۔جنسی عمل کے انبساط میں جسم کاجمال وجلال مختلف رنگوں میں ابھرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔سیکس موضوع اوراسلوب کی تخلیق کاسرچشمہ بھی ہے۔ لیکن اس موضوع کے اظہار کے لیے زبان وبیان پر گرفت ہونا ضروری ہے۔ورنہ اس کے اظہار میں ذراسی لغزش فنکارکوفحش نگار کے زمرے میں لا کر کھڑا کردیتی ہے۔لیکن اگر فنکار سیکس کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش کرے اورزبان کی نزاکتوں کومدنظررکھتے ہوئے اس کوپیش کرے توقاری سیکس کی اس دنیامیں پہنچ جاتا ہے جہاں آنندہی آنندہے۔منٹونے اپنے افسانوں میں سیکس کی اصل روح کوہی پیش کیا ہے لیکن زیادہ تر نقادوں نے ان کے اسلوب کی نفاست اورلطافت کوسمجھے بغیر ان پرفحش نگاری کاالزام عاید کردیا ۔ یہاں تک کہ ان پر مقدمے بھی چلائے گئے اور انہیں صفائی دیتے ہوئے یہ کہنا پڑا:

’’عورت اورمردکارشتہ فحش نہیں ہے۔ان کاذکر بھی فحش نہیں۔لیکن جب اس رشتے کوچوراسی آسنوں یاجوڑدارخفیہ تصویروں میں تبدیل کردیا جاجائے اورلوگوں کوترغیب دی جائے کہ وہ تخلیے میں اس رشتے کوغلط زاویے سے دیکھیں تو میں اس فعل کوصرف فحش ہی نہیں بلکہ نہایت گھناونا،مکروہ اور غیر صحت مندکہوں گا۔‘‘

منٹو نے اس موضوع کے لیے جو اسلوب وضع کیا ہے اس سے جنسی تلذز کی نفیس اور لطیف کیفیت پیدا ہوتی ہے۔اس میں تخریبی یادرندگی کے جذبات نہیں ابھرتے ہیں۔منٹو نے اس قسم کے افسانوں میں صرف سیکس کے ان تجربات کوپیش کیا ہے جن سے ہمیں جنسی آسودگی حاصل ہوتی ہے اورجنسی تلذزکی روحانی کیفیت کااحساس ہوتاہے۔’بلاؤز‘،’دھنوا‘،’شاردا‘،’خوشیا‘اور’بو‘وغیرہ افسانوں میں جنسی تلذزکے مختلف سطحیں ہیں اور تلذزکی ان کیفیات کے اظہارکے لیے منٹوں نے جواسلوب خلق کیا ہے اس کے بھی کئی Shades(رنگ) نظرآتے ہیں۔ طوائفوں کے ساتھ جنسی تعلق کے جوModes ہیں وہ دیگرجنسی تجربوں سے متعلق افسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔مثلاً افسانہ ’ہتک‘میں سیکس کا جو Degree of Satisfaction ہے وہ دوسرے نوعیت کی ہے۔اس افسانہ کے پہلے ہی پیراگراف،’’دن بھرتھکی ماندی وہ ابھی ابھی اپنے بستر پر لیٹی تھی اورلیٹتے ہی سوگئی تھی۔میونسپل کمیٹی کاداروغہ صفائی،جسے وہ سیٹھ کے نام سے پکارا کرتی تھی،ابھی ابھی اس کی ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ کرشراب کے نشے میں چور،گھرکوواپس گیا تھا۔۔۔‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ منٹو ’کام سوتر‘کے اصل جوہر سے واقف ہیں۔ منٹوکے بعض نقادوں نے ’’ ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ نے‘‘کی رعایت سے لکھا ہے کہ منٹو نے اس عبارت میں سوگندھی کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے۔ دراصل نقادوں نے اس عبارت کے اسلوب کو سمجھے بغیر یہ رائے دی ہے۔جبکہ حقیقت یہ کہ مباشرت کے پرم آنند کا احساس اسی وقت ہوتا ہے جب ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑدیئے جاتے ہیں۔مہا کوی کالی داس نے بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔انہوں نے ’’ رگھوونشم‘‘میں سیتا اوررام کی شادی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ راجہ’ دس رتھ‘ اپنی وِشال سیناکے ساتھ بارات لے کر جب جنک نگری پہنچے تو ان کی سینانے وہاں کے باغوں کے پھولوں اورکھیتوں میں لگے فصلوں کو روند ڈالا ۔ پھربھی اس نگری نے سینا کے اس عمل کوویسے محظوظ کیا جیسے عورتیں اپنے پریتم کے کٹھورسنبھوگ کومحظوظ کرتی ہیں۔ ’خوشیا‘ اور ’بو‘ میں جنسی آسودگی کی سطح کچھ اور ہی ہے ۔ افسانہ ’خوشیا‘میں کانتا کے عریاں بدن کودیکھنے کے بعدخوشیا کے اندرآہستہ آہستہ جنسی خواہش اس طرح بیدار ہونے لگتی ہے جیسے ’’کام دیو‘‘ نے ’سوتروان‘خوشیا کے سینہ میں پیوست کردیئے ہوں لیکن اس کے اندرکامرد اس وقت بیدار ہوتاہے جب کانتا اس کے سامنے ننگی چلی آتی ہے اورخوشیاکے اعتراض کے بعد کہتی ہے کہ توکیا ہوا تم اپنا خوشیا ہی توہو۔منٹونے اس خاص لمحے کے بیان کے لیے جوپیرایۂ بیان اختیار کیا ہے اس کی دو خوبیاں ہیں۔ سیکس کے سوئے ہوئے جذبہ کو گدگداکر بیدار کرنے کی خوبی اور دوسری خوبی احساسِ ’ہتک ‘ہے جو سیکس کے جذبے کی شدّت میں اضافہ کردیتا ہے۔اسی طرح افسانہ ’بو‘ میں سیکس کی لذت کے اظہارکے لیے جواسلوب اختیار کیا گیاہے وہ منٹو کے جنسی تجربے اور روحانی لذتیت(Eroticism) سے اس طرح ہم آہنگ ہوگیاہے کہ قاری بھی پرم آنند کی کیفیت سے محظوظ ہونے لگتا ہے۔اس افسانہ میں گھاٹن لڑکی کے پستانوں کودیکھنے کے بعدرندھیرکے جسم میں بھی وہی برقی لہر دوڑجاتی ہے جو کالی داس کی تخلیق ’’کمارسمبھو‘‘میں پاروتی کے سینے سے چادر کھسک جانے کے بعد اس کے پستانوں کودیکھ کر شیوجی کے ریشے ریشے میں سیکس کی برقی لہرڈوڑگئی تھی ۔ رندھیر گھاٹن کے ساتھ صرف ایک رات اپنے کمرے میں رہتا ہے اورایک ہی رات میں اس نے سیکس کی وہی Altimate لذت حاصل کرلی جوشیوجی نے یوگوں یوگوں تک پاروتی کے ساتھ ’ہمالیہ پروت پرحاصل‘کی تھی۔ایسامعلوم ہوتا ہے کہ منٹونے صدیوں سے چلے آرہے ہندوستانی جنسی تقدس کے تصورکوازسرنوقاری سے متعارف کراکراس عمل کے ان پہلوؤں پرغور کرنے کے لیے امادہ کیا ہے جسے لوگ بھول چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ منٹوپرفحش نگاری کاالزام لگایا گیاتھاکیوں کہ لوگ جنسی عمل کوفحش عمل سمجھنے لگے تھے۔ رندھیراورگھاٹن لڑکی کے Sexo-Yogic لمحات کے بیان کے لیے منٹونے جو اسلوب خلق کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکس کی دیوی ’’مہاناگنی‘‘نے سیکس کے دیوتا ’مہا ناگ‘کودبوچ لیا ہے اور آسمان سے جنسی تلذزکے رسوں کی امرت ورشاشروع ہوگئی ہے۔بنجردھرتی زرخیز ہورہی ہے، پیڑپودے سبزوشاداب ہورہے ہیں۔ پھول کھلنے لگے ہیں اوران کی خوشبوؤں سے عالم مہک اٹھا ہے۔یہ منٹوکے اسلوب کی جادوگری کا کمال ہے۔سیکس کی ایسی کیفیت اورفضا منٹوجیسافنکار ہی پیداکرسکتا ہے۔ منٹوکے اسلوب سے منٹوکا فن،ان کے تجربے اور روح ہم آہنگ ہوکر جنسی تلذزکولافانی بنادیا ہے۔منٹوکاکمال یہ ہے کہ مختلف النوع جنسی تجربات واحساسات کے اظہار کے لیے جو پیرایہ بیان اختیار کیا ہے اس میں ان کے اپنے تجربے شامل ہوگئے ہیں اوران کے قاری بھی ویسا ہی محسوس کرنے لگتے ہیں جیسے ان کے افسانوں کے کرداروں نے محسوس کیاتھا۔ان کے افسانوں کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجئے:

’’پھرآندھی آگئی اور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندناکہیں غائب ہوگیا۔۔۔پھندنے کی تلاش میں نکلا۔۔۔دیکھی اور ان دیکھی جگہوں میں گھومتا رہا۔۔۔نئے لٹھے کی بوبھی یہیں کہیں سے آنا شروع ہوئی۔پھرنہ جانے کیا ہوا۔۔۔ایک کالی شاٹن کے بلاؤزپراس کاہاتھ پڑا۔۔۔کچھ دیرتک وہ کسی دھڑکتی ہوئی چیزپراپناہاتھ پھیرتارہا۔پھردفعتاًہڑبڑاکے اٹھ بیٹھا۔تھوڑی دیرتک وہ کچھ نہ سمجھ سکاکہ کیاہوگیاہے۔اس کے بعد اسے خوف،تعجب اورایک انوکھی ٹیس کا احساس ہوا۔اس کی حالت اس وقت عجیب وغریب تھی۔۔۔پہلے اسے تکلیف وحرارت محسوس ہوئی۔مگرچندلمحات کے بعدایک ٹھنڈی سی لہر اس کے جسم پررینگنے لگی ‘‘( ’بلاؤز‘)

’’کھڑکی کے پاس باہر پیپل کے پتّے رات کے دودھیالے اندھیرے میں جھومروں کی طرح تھرتھرا رہے تھے اورنہارہے تھے اوروہ گھاٹن لونڈیارندھیرکے ساتھ کپکپاہٹ بن کرچمٹی ہوئی تھی۔‘‘( ’بو‘(

’’رندھیراس کے پاس بیٹھ گیااورگانٹھ کھولنے لگا۔جب نہیں کھلی تو تھک ہارکراس کے ایک ہاتھ میں چولی کاایک سراپکڑا،دوسرے ہاتھ میں دوسراسرااورزورسے جھٹکا دیا۔گرہ ایک دم پھسلی،رندھیرکے ہاتھ زورسے اِدھراُدھرہٹے اوردودھڑکتی ہوئی چھاتیاں ایک دم نمایاں ہو گئیں۔لمحہ بھر کے لیے رندھیرنے سوچا کہ اس کے اپنے ہاتھوں نے اس گھاٹن لڑکی کے سینے پرنر م نرم گندھی ہوئی مٹّی چابک دست کمہار کی طرح دوپیالوں کی شکل دے دی ہے۔‘‘( ’بو‘)

’’اس بو نے اس لڑکی اوررندھیر کو ایک رات کے لئے آپس میں حل کردیا تھا۔دونوں ایک دوسرے میں مدغن ہوگئے تھے۔ان عمیق ترین گہرائیوں میں اتر گئے تھے،جہاں پہنچ کر انسانی لذت میں تبدیل ہوگئے تھے۔ایسی لذت جولمحاتی ہونے کے باوجوددائمی تھی۔جومائلِ پروازہونے کے باوجودساکن اورجامدتھی۔۔۔دونوں ایک ایساپنچھی بن گئے تھے جوآسمان کی نلاہٹوں میں مائلِ پروازرہنے پربھی غیرمتحرک دکھائی دیتا ہے۔

۔۔۔اس بوکو،جواس گھاٹن لڑکی کے ہرمسام سے پھوٹ رہی تھی، رندھیراچھی طرح سمجھتاتھا۔حالانکہ وہ اس کاتجذیہ نہیں کرسکتا تھا۔جس طرح بعض اوقات مٹی پرپانی چھڑکنے سے سوندھی سوندھی بونکلتی ہے۔لیکن نہیں،وہ بوکچھ اورہی طرح کی تھی۔اس میں لونگ اورعطرکامصنوعی پن نہیں تھا،وہ بالکل اصلی تھی۔۔۔عورت اورمردکے باہمی تعلقات کی طرح اصلی اورمقدس۔‘‘(بو(

قدیم ہندوستانی فنکاروں نے جنسی عمل کے دوران عورت کے بدن سے نکلنے والی خوشبوؤں کوکبھی مٹّی کی سوندھی خوشبوتوکبھی جنگلی پھولوں اورخوشبودار پتوں کی خوشبوسے تعبیرکیاہے۔جدیدماحولیاتی وجنسیاتی مطالعے کی روسے دوران مباشر ت عورت کے بدن سے نکلنے والی خوشبوسے ماحول کی کثافت دورہوتی ہے۔منٹونے باربار’بو‘کاذکرکرکے شایدحددرجہ آگہی کاثبوت دیاہے۔بعض جنسی ماہرین کا خیال ہے کہ مباشرت کے عمل کے دوران مردکی پسندیدہ خوشبوعورت کے بدن سے نکلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے جو مردکواس قدرمدہوش کردیتی ہے کہ وہ جنسی عمل سے کبھی فارغ نہیں ہوناچاہتا ہے۔شکیل الرحمٰن نے اسی نکتہ پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:

’’حساس فنکاروں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ ہر عورت کی اپنی خوشبو ہوتی ہے، خوشبو کا رشتہ قائم ہوجائے تو سچی جنسی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ نیز سچا انبساط ملتا ہے، جو عورتیں جسم پر خوشبوؤں کا استعمال نہیں کرتیں ان کے بدن سے مٹی کی سوندھی سوندھی وہ خوشبو ملتی ہے جو آدم کو حوا سے ملی ہوگی۔ مٹی کی یہ سوندھی سوندھی خوشبو عورت کے ہر عضو پر ہونٹوں کو رکھ دینے پر مجبور کردیتی ہے، یہ خوشبو جادو ہے، جہاں ہونٹ رکھئے وہی خوشبو ملے کہ جس سے احساس و شعور کی بے قراری بڑھ جائے اور پھر محسوس ہوجیسے اس خوشبو نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ وہ عورت کہ جس نے حضرت سلیمان کو چوم کر یہ کہا تھا میرا بستر دارچینی کی خوشبو سے معطر ہے اور میرے بدن کی فطری خوشبو کستوری جیسی ہے، آپ آجائیے۔ ہم دونوں رات بھر ایک دوسرے میں جذب رہیں، وہ عورت ایسے گہرے جنگل کی ہوگی کہ جہاں پھولوں کے رنگ انتہائی تیز اور شوخ ہوں گے، جہاں کے پھل رسوں سے بھرے ہوں گے، جہاں کی مرچیں حد درجہ تیز ہوں گی اور جہاں جسم آزاد ہوگا! ایسی عورت کا تجربہ پوری زندگی کے حسن و جمال، نرمی اور گرمی اور پوری زندگی کی جنسی آسودگی کے تجربوں کے رس کا استعارہ ہے۔ عورت کے جسم کی خوشبو اگر اس طرح ملے کہ لوبان کی خوشبو وجود میں جذب ہونے لگے، دارچینی کی مہک کا احساس کو گرفت میں لینے لگے تو ٹپکتا ہوا تجربوں کا رس کتنا شیریں ہوگا۔(‘‘ منٹوشناسی اور شکیل الرحمٰن‘‘، ص - 125(

منٹوکے اسلوب کے متعلق عام طورپر کہاجاتا ہے کہ انہوں نے اردوکے علاوہ پنجابی، ہندی اور کشمیری الفاظ کا استعمال کیا ہے ۔ ان کا اسلوب آسان ہے۔مکالموں میں عام بول چال کی زبان استعمال کرتے ہیں۔مشکل الفاظ اور نامانوس تراکیب ان کے یہاں شاید ہی کہیں نظر آتی ہیں۔ان کی تحریر میں ایک بے ساختہ پن ہے۔ان کا مشاہدہ جتنا باریک ہے ان کا بیان اتناہی صاف اور تفصیلی ہے۔منٹو کے اسلوب میں سادگی کے ساتھ ساتھ تاثیر اور جادو بیانی پائی جاتی ہے۔منٹو کے اسلوب کے متعلق یہ تمام باتیں درست ہونے کے باوجود ان سے منٹو کے افسانوی اسلوب کی اصل روح تک رسائی نہیں ہوتی کیوں کہ افسانوی اسلوب کے متعلق ایسے بیانات کسی بھی افسانہ نگار کے لیے دیئے جاسکتے ہیں ۔منٹو کے اسلوب کی اصل روح کواردوحروفِ تہجی کی ترتیب ونظام،اسماء،افعال اورمصمتوں ومصوّتوں کے خوشوں کے حساب کتاب یا اردوکی’ کوزی‘ اور’معکوسی‘ آوازوں میں بھی تلاش نہیں کی جاسکتی ہے۔ ان کے اسلوب کی اصل روح ان کے کرداروں کے حرکات وسکنات،جذبات واحساسات اوران کے آس پاس کے ماحول سازی وفضامیں نظرآتی ہے جن میں منٹو کی شخصیت کاپرتوبھی موجودہے۔منٹو کا اسلوب طوائفوں کی تاریک اور پست زندگی کی سسکیوں کے بیان میں ،بشن سنگھ کے ذہنی کرب میں بھی اور ’سوگندھی‘کی جھنجھلاہٹ کے اظہار میں یاپھر ان تحریروں میں نظرآتا ہے جہاں منٹو نے Sexuality کو Texuality میں تبدیل کردیا ہے۔ اس کے علاوہAltimate جنسی لذتیت کے ان لمحوں کے بیان میں نظرآتاہے جہاں منٹوکے نسوانی کرداروں کے بدن سے طرح طرح کی خوشبو نکلنے کااحساس ہوتا ہے۔ان کے اسلوب کا اصل جوہر وہاں بھی نظر آتا ہے جہاں ان کے فن کی جمال وجلال اوران کی روح افسانوں کے کرداروں کے جذبات واحساسات اوراعمال سے ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔ مختلف رنگوں کے پھولوں کی طرح منٹوکے اسلوب کے بھی کئی رنگ ہیں جو ایک دوسرے میں ضم ہوکر آفتاب کی شعاعوں کی طرح روشن اور تابناک ہوگئے ہیں جنہیں پہچاننے کے لیے کسی Prism کی نہیں بلکہ جمالیاتی ویژن کی ضرورت ہے۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں