جمعرات، 29 مارچ، 2012

منٹوکے افسانوں میں جنس کی جمالیات/ Manto ke Afsanon men Jins ki Jamaliyat



योषा वाव गौतामाग्निस्तास्या उपस्थ ए़व समिद्यदुपमंत्रयते स धूमो
योनिरर्चिर्यदंतः करोति ते अंगारा अभिनंदा विस्फुलिंगा: १
तस्मिन्नेतस्मिन्न्ग्नौ देवा रेतो जुह्वति तस्या आहुतेर्गर्भःसंभवति २

)ترجمہ: اے گوتم! یوشا(عورت) ہی آگ ہے، یعنی یہ شعلہ بار ہے۔اس کے شرم گاہ ( بذر ،شفرِ صغیر اورشفرِ کبیر) کشش کامرکزہے۔مباشرت سے دھنواپیداہوتاہے ۔شرم گاہ شعلہ ہے۔دورانِ مباشرت جو مادۂ منویہ اندر کی طرف داخل ہوتے ہیں وہ انگارے ہیں اور اس عمل کے دوران جوجنسی آسودگی حاصل ہوتی ہے وہ ’پرم آنندہے۔عورت کے شرم گاہ(ہَوَن کُنڈ)میں روحانی بزگ مادۂ منویہ کا ’ہَوَن‘کرتے ہیں(’آہوتی‘یا’ قربانی‘ دیتے ہیں)جس سے حمل وجود میں آتا ہے۔(

منتر کے پہلے حصّے میں عورت کو آگ سے، اس کے شرم گاہ کوآتش کدہ سے، مادۂ منویہ کوانگاروں سے اورمباشرت کے عمل کے دوران حاصل ہونے والی جنسی آسودگی کو ’پرم آنند سے تعبیر کیا گیا ہے۔دوسرے منترمیں شرم گاہ کو’ ’ہَوَن کُنڈ‘‘ اوراس میں جومادۂ منویہ جاتے ہیں اسے ’آہوتی ‘دینے سے تعبیر کرکے جنسی عمل کو مذہبی فریضہ قراردیا گیا ہے جو ایک تخلیقی و تعمیری عمل ہے جس کے بغیردنیا کا وجود ممکن نہیں ہے ۔یعنی تخلیقیت اور جنسی لذتیت ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ان دونوں کا سرچشمہ جنسی عمل ہے۔ شاید اسی لیے’ لینڈوروم‘ نے کہا ہے کہ ’’تخلیقی عمل کے بعد ایساہی جنسی اور جسمانی ردّعمل ہوتا ہے،جیسا کہ مباشرت کے بعدیااس کے برعکس یاشایدجنسی جذبے کے ذریعہ مظہرہوتا ہے،جس کی تکمیل ضروری ہے۔دونوں ردّعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنس ،فنکار کے تخلیقی عمل میں شامل ہے۔‘‘ فرائڈ نے بھی لاشعورکے عمل اور Wishfulfilment theory میں واضح کیا ہے کہ ’’ہرقسم کا آرٹ اورہرقسم کا ادب حقیقتاً جنس کا رہینِ منت ہے۔‘‘

منٹوجنسی عمل کے فلسفیانہ حقیقت اوراس کے جمال وجلال سے واقف تھے اسی لیے انہوں نے اپنے افسانوں میں جنس کو موضوع بنایا اورسیکس کی اصل روح کوپیش کیا لیکن زیادہ تر نقادوں نے ان کے اسلوب کی نفاست اورلطافت کوسمجھے بغیر ان پرفحش نگاری کاالزام عاید کردیا ۔ یہاں تک کہ ان پر مقدمے بھی چلائے گئے اور انہیں صفائی دیتے ہوئے یہ کہنا پڑا:

’’عورت اورمردکارشتہ فحش نہیں ہے۔ان کاذکر بھی فحش نہیں۔لیکن جب اس رشتے کوچوراسی آسنوں یاجوڑدارخفیہ تصویروں میں تبدیل کردیا جاجائے اورلوگوں کوترغیب دی جائے کہ وہ تخلیے میں اس رشتے کوغلط زاویے سے دیکھیں تو میں اس فعل کوصرف فحش ہی نہیں بلکہ نہایت گھناونا،مکروہ اور غیر صحت مندکہوں گا۔‘‘

جنس کے متعلق منٹو کے بیانات کی تقویت D.H.Lawrence کے اس خیال سے بھی ہو جاتی ہے:

’’جنس اور حسن ایک ہی چیز ہے۔شعلہ اور آگ کی طرح۔اگرتم جنس سے نفرت کرتے ہو توتم حسن سے بھی نفرت کرتے ہو۔اگرتم زندہ حسن سے پیار کرسکتے ہواورجنس سے نفرت، لیکن حسن سے پیار کرنے کے لیے جنس کا احترام لازمی ہے۔جنس اور حسن ناقابلِ تقسیم ہیں۔جیسے زندگی اور شعورجو ذہانت جنس اورحسن سے وابستہ ہے اور جنس اور حسن سے جنم لیتی ہے وہی وجدان ہے۔ ‘‘

یونانی دیومالا کے مطابق کہاجاتاہے کہ قدیم زمانے میں ایسے لوگ ہوتے تھے جونصف عورت اورنصف مرد تھے۔نصف عورت اورنصف مردہونے کی وجہ سے انہیں اپنے کاملیت پرنازتھا ۔اس لیے وہ دیوتاؤں کے خلاف بغاوت کردیتے تھے جس کی وجہ سے دیوتاؤں کے بادشاہ Zeus نے ان کے جسم کے دوالگ الگ ٹکڑے (نصف عورت اورنصف مرد) کرکے زمین پرپھینک دیا۔اس دن سے آج تک عورت اور مرد کے منقسم حصّے ایک دوسرے کے ساتھ ضم ہوکر تکمیل پانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی لیے شکیل الرحمٰن نے اس موضوع پراظہارخیال کرتے ہوئے لکھاہے کہ’’ہرمرد کے اندر عورت ہے اور ہر عورت کے اندر مرد ،یہ دونوں حقیقتیں ایک دوسرے سے اس وقت ملتی ہیں جب یوگ سے انہیں بیدار کیاجاتا ہے‘‘۔

منٹو نے بھی Sexo-Yogic عمل کے لطیف احساسات کواپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔انہوں نے اس موضوع کے لیے جو اسلوب وضع کیا ہے اس سے جنسی تلذز کی نفیس اور لطیف کیفیت پیدا ہوتی ہے۔اس میں تخریبی یادرندگی کے جذبات نہیں ابھرتے ہیں۔منٹو نے اس قسم کے افسانوں میں صرف سیکس کے ان تجربات کوپیش کیا ہے جن سے ہمیں جنسی آسودگی حاصل ہوتی ہے اورجنسی تلذزکی روحانی کیفیت کااحساس ہوتاہے۔’بلاؤز‘،’دھنوا‘،’شاردا‘،’خوشیا‘اور’بو‘وغیرہ افسانوں میں جنسی تلذزکے مختلف سطحیں ہیں اور تلذزکی ان کیفیات کے اظہارکے لیے منٹوں نے جواسلوب خلق کیا ہے اس کے بھی کئی Shades)رنگ) نظرآتے ہیں۔ طوائفوں کے ساتھ جنسی تعلق کے جوModes ہیں وہ دیگرجنسی تجربوں سے متعلق افسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔مثلاً افسانہ ’ہتک‘میں سیکس کا جو Degree of Satisfaction ہے وہ دوسرے نوعیت کی ہے۔اس افسانہ کے پہلے ہی پیراگراف،’’دن بھرتھکی ماندی وہ ابھی ابھی اپنے بستر پر لیٹی تھی اورلیٹتے ہی سوگئی تھی۔میونسپل کمیٹی کاداروغۂصفائی،جسے وہ سیٹھ کے نام سے پکارا کرتی تھی،ابھی ابھی اس کی ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ کرشراب کے نشے میں چور،گھرکوواپس گیا تھا۔۔۔‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ منٹو ’کام سوتر‘کے اصل جوہر سے واقف ہیں۔ منٹوکے بعض نقادوں نے ’’ ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ نے‘‘کی رعایت سے لکھا ہے کہ منٹو نے اس عبارت میں سوگندھی کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے۔ دراصل نقادوں نے اس عبارت کے اسلوب کو سمجھے بغیر یہ رائے دی ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مباشرت کے پرم آنند کا احساس اسی وقت ہوتا ہے جب ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑدیئے جاتے ہیں۔مہا کوی کالی داس نے بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔انہوں نے ’’ رگھوونشم‘‘میں سیتا اوررام کی شادی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ راجہ’ دس رتھ‘ اپنی وِشال سیناکے ساتھ بارات لے کر جب جنک نگری پہنچے تو ان کی سینانے وہاں کے باغوں کے پھولوں اورکھیتوں میں لگے فصلوں کو روند ڈالا ۔ پھربھی اس نگری نے سینا کے اس عمل کوویسے محظوظ کیا جیسے عورتیں اپنے پریتم کے کٹھورسنبھوگ کومحظوظ کرتی ہیں۔ ’خوشیا‘ اور ’بو‘ میں جنسی آسودگی کی سطح کچھ اور ہی ہے ۔ افسانہ ’خوشیا‘میں کانتا کے عریاں بدن کودیکھنے کے بعدخوشیا کے اندرآہستہ آہستہ جنسی خواہش اس طرح بیدار ہونے لگتی ہے جیسے ’’کام دیو‘‘ نے ’سوتروان‘خوشیا کے سینہ میں پیوست کردیئے ہوں لیکن اس کے اندرکامرد اس وقت بیدار ہوتاہے جب کانتا اس کے سامنے ننگی چلی آتی ہے اورخوشیاکے اعتراض کے بعد کہتی ہے کہ توکیا ہوا تم اپنا خوشیا ہی توہو۔منٹونے اس خاص لمحے کے بیان کے لیے جوپیرایۂ بیان اختیار کیا ہے اس کی دو خوبیاں ہیں۔ سیکس کے سوئے ہوئے جذبہ کو گدگداکر بیدار کرنے کی خوبی اور دوسری خوبی احساسِ ’ہتک ‘ہے جو سیکس کے جذبے کی شدّت میں اضافہ کردیتا ہے۔اسی طرح افسانہ ’بو‘ میں سیکس کی لذت کے اظہارکے لیے جواسلوب اختیار کیا گیاہے وہ منٹو کے جنسی تجربے اور روحانی لذتیت(Eroticism) سے اس طرح ہم آہنگ ہوگیاہے کہ قاری بھی پرم آنند کی کیفیت سے محظوظ ہونے لگتا ہے۔اس افسانہ میں گھاٹن لڑکی کے پستانوں کودیکھنے کے بعدرندھیرکے جسم میں بھی وہی برقی لہر دوڑجاتی ہے جو کالی داس کی تخلیق ’’کمارسمبھو‘‘میں پاروتی کے سینے سے چادر کھسک جانے کے بعد اس کے پستانوں کودیکھ کر شیوجی کے ریشے ریشے میں سیکس کی برقی لہرڈوڑگئی تھی ۔ رندھیر گھاٹن کے ساتھ صرف ایک رات اپنے کمرے میں رہتا ہے اورایک ہی رات میں اس نے سیکس کی وہی Altimate لذت حاصل کرلی جوشیوجی نے یوگوں یوگوں تک پاروتی کے ساتھ ’ہمالیہ پروت پرحاصل‘کی تھی۔ایسامعلوم ہوتا ہے کہ منٹونے صدیوں سے چلے آرہے ہندوستانی جنسی تقدس کے تصورکوازسرنوقاری سے متعارف کراکراس عمل کے ان پہلوؤں پرغور کرنے کے لیے امادہ کیا ہے جسے لوگ بھول چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ منٹوپرفحش نگاری کاالزام لگایا گیاتھاکیوں کہ لوگ جنسی عمل کوفحش عمل سمجھنے لگے تھے۔ رندھیراورگھاٹن لڑکی کے Sexo-Yogic لمحات کے بیان کے لیے منٹونے جو اسلوب خلق کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکس کی دیوی ’’مہاناگنی‘‘نے سیکس کے دیوتا ’مہا ناگ‘کودبوچ لیا ہے اور آسمان سے جنسی تلذزکے رسوں کی امرت ورشاشروع ہوگئی ہے۔بنجردھرتی زرخیز ہورہی ہے، پیڑپودے سبزوشاداب ہورہے ہیں۔ پھول کھلنے لگے ہیں اوران کی خوشبوؤں سے عالم مہک اٹھا ہے۔یہ منٹوکے اسلوب کی جادوگری کا کمال ہے۔سیکس کی ایسی کیفیت اورفضا منٹوجیسافنکار ہی پیداکرسکتا ہے۔ منٹوکے اسلوب سے منٹوکا فن،ان کے تجربے اور روح ہم آہنگ ہوکر جنسی تلذزکولافانی بنادیا ہے۔منٹوکاکمال یہ ہے کہ مختلف النوع جنسی تجربات واحساسات کے اظہار کے لیے جو پیرایہ بیان اختیار کیا ہے اس میں ان کے اپنے تجربے شامل ہوگئے ہیں اوران کے قاری بھی ویسا ہی محسوس کرنے لگتے ہیں جیسے ان کے افسانوں کے کرداروں نے محسوس کیاتھا۔ان کے افسانوں کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجئے:

’’پھرآندھی آگئی اور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندناکہیں غائب ہوگیا۔۔۔پھندنے کی تلاش میں نکلا۔۔۔دیکھی اور ان دیکھی جگہوں میں گھومتا رہا۔۔۔نئے لٹھے کی بوبھی یہیں کہیں سے آنا شروع ہوئی۔پھرنہ جانے کیا ہوا۔۔۔ایک کالی شاٹن کے بلاؤزپراس کاہاتھ پڑا۔۔۔کچھ دیرتک وہ کسی دھڑکتی ہوئی چیزپراپناہاتھ پھیرتارہا۔پھردفعتاًہڑبڑاکے اٹھ بیٹھا۔تھوڑی دیرتک وہ کچھ نہ سمجھ سکاکہ کیاہوگیاہے۔اس کے بعد اسے خوف،تعجب اورایک انوکھی ٹیس کا احساس ہوا۔اس کی حالت اس وقت عجیب وغریب تھی۔۔۔پہلے اسے تکلیف وحرارت محسوس ہوئی۔مگرچندلمحات کے بعدایک ٹھنڈی سی لہر اس کے جسم پررینگنے لگی ‘‘( بلاؤز)

’’مسعود کو ای شرارت سوجھی۔دبے پاؤں وہ نیم بازدروازے کی طرف بڑھا اور دھماکے کے ساتھ اس نے دونوں پٹ کھول دیئے۔دو چیخیں بلند ہوئیں اورکلشوم اور اس کی سہیلی بملا نے جوکہ پاس پاس لیٹی تھیں، خوف زدہ ہوکرجھٹ سے لحاف اوڑھ لیا۔۔۔۔بملاکے بلاؤز کے بٹن کھلے ہوئے تھے اور کلشوم اس کے عریاں سینے کو گھوررہی تھی‘‘(دھواں(

منٹو نے ان عبارتوں میں عورتوں کے سینے کے اُبھاراورگدازکے لمس سے جنسی تلذزکے برقی کیفیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔صنف نازک کی اس حصّے کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سنسکرت کے ایک عظیم شاعراورمفکربھرتھری ہری نے لکھا ہے:

’’چھوڑ ان پھیکے باسی اُپدیشوں کو/مردکوتوسرف دوچیزوں کی لگن ہونی چاہئے/بھرپور چھاتیوں والی اس ناری کی جو کام رس کو اُبھارے/اور دل کوموہ لینے والی بَن کی۔‘‘

دراصل رقص کا آغاز بَن یعنی جنگل کے معاشرے میں ہوا تھا کیوں کہ جنگل کے معاشرے میں بدن جذبے کے عریا ں اور والہانہ اظہارکی صورت اختیار کرلیتاہے۔موسیقی سے بھی جنسی جذبہ کا تعلق بہت گہرا ہے۔منٹو کے افسانوں کے چند اقتباسات اور ملاحظہ کیجئے جن میں جنسی کی جمالیات نقطۂ عروج پر ہے۔

’’کھڑکی کے پاس باہر پیپل کے پتّے رات کے دودھیالے اندھیرے میں جھومروں کی طرح تھرتھرا رہے تھے اورنہارہے تھے اوروہ گھاٹن لونڈیارندھیرکے ساتھ کپکپاہٹ بن کرچمٹی ہوئی تھی۔‘‘( ’بو‘ (

’’رندھیراس کے پاس بیٹھ گیااورگانٹھ کھولنے لگا۔جب نہیں کھلی تو تھک ہارکراس کے ایک ہاتھ میں چولی کاایک سراپکڑا،دوسرے ہاتھ میں دوسراسرااورزورسے جھٹکا دیا۔گرہ ایک دم پھسلی،رندھیرکے ہاتھ زورسے اِدھراُدھرہٹے اوردودھڑکتی ہوئی چھاتیاں ایک دم نمایاں ہو گئیں۔لمحہ بھر کے لیے رندھیرنے سوچا کہ اس کے اپنے ہاتھوں نے اس گھاٹن لڑکی کے سینے پرنر م نرم گندھی ہوئی مٹّی چابک دست کمہار کی طرح دوپیالوں کی شکل دے دی ہے۔‘‘( ’بو‘)

’’اس بو نے اس لڑکی اوررندھیر کو ایک رات کے لئے آپس میں حل کردیا تھا۔دونوں ایک دوسرے میں مدغن ہوگئے تھے۔ان عمیق ترین گہرائیوں میں اتر گئے تھے،جہاں پہنچ کر انسانی لذت میں تبدیل ہوگئے تھے۔ایسی لذت جولمحاتی ہونے کے باوجوددائمی تھی۔جومائلِ پروازہونے کے باوجودساکن اورجامدتھی۔۔۔دونوں ایک ایساپنچھی بن گئے تھے جوآسمان کی نلاہٹوں میں مائلِ پروازرہنے پربھی غیرمتحرک دکھائی دیتا ہے۔

۔۔۔اس بوکو،جواس گھاٹن لڑکی کے ہرمسام سے پھوٹ رہی تھی، رندھیراچھی طرح سمجھتاتھا۔حالانکہ وہ اس کاتجذیہ نہیں کرسکتا تھا۔جس طرح بعض اوقات مٹی پرپانی چھڑکنے سے سوندھی سوندھی بونکلتی ہے۔لیکن نہیں،وہ بوکچھ اورہی طرح کی تھی۔اس میں لونگ اورعطرکامصنوعی پن نہیں تھا،وہ بالکل اصلی تھی۔۔۔عورت اورمردکے باہمی تعلقات کی طرح اصلی اورمقدس۔‘‘(بو)

قدیم ہندوستانی فنکاروں نے جنسی عمل کے دوران عورت کے بدن سے نکلنے والی خوشبوؤں کوکبھی مٹّی کی سوندھی خوشبوتوکبھی جنگلی پھولوں اورخوشبودار پتوں کی خوشبوسے تعبیرکیاہے۔جدیدماحولیاتی وجنسیاتی مطالعے کی روسے دوران مباشر ت عورت کے بدن سے نکلنے والی خوشبوسے ماحول کی کثافت دورہوتی ہے۔منٹونے باربار’بو‘کاذکرکرکے شایدحددرجہ آگہی کاثبوت دیاہے۔بعض جنسی ماہرین کا خیال ہے کہ مباشرت کے عمل کے دوران مردکی پسندیدہ خوشبوعورت کے بدن سے نکلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے جو مردکواس قدرمدہوش کردیتی ہے کہ وہ جنسی عمل سے کبھی فارغ نہیں ہوناچاہتا ہے۔شکیل الرحمٰن نے اسی نکتہ پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:

’’حساس فنکاروں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ ہر عورت کی اپنی خوشبو ہوتی ہے، خوشبو کا رشتہ قائم ہوجائے تو سچی جنسی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ نیز سچا انبساط ملتا ہے، جو عورتیں جسم پر خوشبوؤں کا استعمال نہیں کرتیں ان کے بدن سے مٹی کی سوندھی سوندھی وہ خوشبو ملتی ہے جو آدم کو حوا سے ملی ہوگی۔ مٹی کی یہ سوندھی سوندھی خوشبو عورت کے ہر عضو پر ہونٹوں کو رکھ دینے پر مجبور کردیتی ہے، یہ خوشبو جادو ہے، جہاں ہونٹ رکھئے وہی خوشبو ملے کہ جس سے احساس و شعور کی بے قراری بڑھ جائے اور پھر محسوس ہوجیسے اس خوشبو نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ وہ عورت کہ جس نے حضرت سلیمان کو چوم کر یہ کہا تھا میرا بستر دارچینی کی خوشبو سے معطر ہے اور میرے بدن کی فطری خوشبو کستوری جیسی ہے، آپ آجائیے۔ ہم دونوں رات بھر ایک دوسرے میں جذب رہیں، وہ عورت ایسے گہرے جنگل کی ہوگی کہ جہاں پھولوں کے رنگ انتہائی تیز اور شوخ ہوں گے، جہاں کے پھل رسوں سے بھرے ہوں گے، جہاں کی مرچیں حد درجہ تیز ہوں گی اور جہاں جسم آزاد ہوگا! ایسی عورت کا تجربہ پوری زندگی کے حسن و جمال، نرمی اور گرمی اور پوری زندگی کی جنسی آسودگی کے تجربوں کے رس کا استعارہ ہے۔ عورت کے جسم کی خوشبو اگر اس طرح ملے کہ لوبان کی خوشبو وجود میں جذب ہونے لگے، دارچینی کی مہک کا احساس کو گرفت میں لینے لگے تو ٹپکتا ہوا تجربوں کا رس کتنا شیریں ہوگا۔(‘‘ منٹوشناسی اور شکیل الرحمٰن‘‘، ص - 125)

منٹو کے افسانوں میں سیکس کا اصل جوہرAltimate جنسی لذتیت کے ان لمحوں کے بیان میں نظرآتاہے جہاں منٹوکے نسوانی کرداروں کے بدن سے طرح طرح کی خوشبو نکلنے کااحساس ہوتا ہے۔ان کے ان تحریروں میں بھی نظرآتا ہے جہاں انہوں نے Sexuality کو Texuality میں تبدیل کردیا ہے۔ اور وہاں بھی جہاں ان کے فن کی جمال وجلال اوران کی روح جنس سے متعلق افسانوں کے کرداروں کے جذبات واحساسات اوراعمال سے ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں