جمعہ، 9 نومبر، 2012

شرافت اور سادگی کے پیکر:ڈاکٹرشریف احمد




20 جون 2012 کو شام3 بجے شعیب رضا فاطمی نے فون پر یہ منحوس خبر دی کہ شریف صاحب اب نہیں رہے۔ شعیب کی آواز مجھے ٹھیک سے سنائی نہیں دے رہی تھی۔میں نے ان سے بار بار پوچھا کیا؟۔۔۔کیا؟انہوں نے ہربار ایک ہی جواب دیا’’شریف صاحب اب نہیں رہے‘‘۔ میں نے پھرپوچھاکون شریف صاحب؟انہوں نے جواب دیا ’ارے بھائی اپنے شریف صاحب،آپ کے استاد۔میں نے پھرپوچھاآپ کو یہ خبرکس نے دی؟ارے بھائی اسی گلی میں میرا آفس ہے،جہاں ان کا گھرہے۔شاید میرا ذہن اس خبر کوسچ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔اس خبر سے میرے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔میں محوحیرت تھا ،کئی باردل میں آیا کہ فیروزصاحب سے بات کروں جوشریف صاحب کے دل اورگھر کے بے حد قریب رہتے ہیں، لیکن نہ جانے کیوں میرے ہاتھ پاؤں کی جنبش تھم سی گئی۔ شاید آہستہ آہستہ میں شعورسے لا شعور کی طرف بڑھنے لگاتھااوراستاد محترم ڈاکٹر شریف احمد سے وابستہ یادیں جسے مصروف ترین شب وروزکی گردنے دندھلادیاتھا، دھیرے دھیرے روشن ہونے لگیں اوران سے وابستہ جانے کتنے واقعات کئی گھنٹوں تک آنکھوں میں پھرتے رہے،میں خاموش پتھرکی مورت کی طرح اپنے گھرکے ڈرائنگ روم میں بیٹھا رہا۔شام تقریباً سات بجے گھرسے باہر نکل کر جوگرس پارک میں واک کرنے چلاگیا۔سوچا یہیں اطمنان سے فیروز صاحب سے اپنے رنج و غم کا اظہار کروں گا تاکہ دل کابوجھ کچھ ہلکا ہو۔لیکن فیروزصاحب کوجب فون لگایا توبمشکل کچھ سکنڈہی انہوں نے بات کی۔ اس کے بعدوہ زاروقطاررونے لگے اور فون کارسیوربغیرکچھ کہے رکھ دیا۔اس کے بعدمیں نے پروفیسرشکیل الرحمن صاحب کو فون کرکے اس سانحہ کی خبر دی۔کچھ دیرتک تو وہ بھی بالکل خاموش رہے ۔پھراپنے آپ کوسنبھالتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتاہے؟ وہ توممبئی گئے ہوئے تھے ۔وہاں جانے سے دو روز پہلے ان سے فون پر بات ہوئی تھی۔واپس آکروہ میری کتاب ’’آشرم ‘‘پر اپنی تفصیلی رائے دینے والے تھے۔یہ کہتے ہوئے ان کی آوازبھرّانے لگی۔کچھ دیر تک خاموش رہے ۔پھرکہنے لگے نہ جانے ان کی اہلیہ کس حال میں ہیں۔پتہ نہیں ان پر کیا بیت رہی ہوگی۔شکیل الرحمن صاحب کے لیے بھی یہ خبر بے حدوحشت اثر تھی۔ پھر بھی انھوں نے شریف صاحب سے اپنے دیرینہ تعلقات کاذکرکیا۔کہنے لگے کشمیریونیورسٹی میں ہم دونوں ساتھ ساتھ تھے۔بعد میں وہ دہلی یونیورسٹی آگئے۔لیکن اُس وقت سے آج تک ہمارے تعلقات بے حداچھے تھے۔ہم دونوں اکثروبیشتر ادبی موضوعات پر تبادلۂ خیال کرتے تھے۔وہ ایک سچے دوست اور ساتھی تھے۔ تھوڑی دیر بعد شریف صاحب کے ایک شاگرداور راشٹریہ سہارا کے نامہ نگار اطہرصاحب کافون آیا ۔انہوں نے بھی اپنے رنج وغم کااظہارکیاپھرکہا کہ’ روزنامہ راشٹریہ سہارا‘ کے لئے آپ کا ردّعمل چاہیے۔میں نے ان سے کہا کہ استاد محترم کے متعلق میں جتنابھی کہوں وہ کم ہے۔فی الحال میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ وہ سراپااستادتھے۔ان کے رگ و پے میں شرافت اور اپنے شاگردوں اور دوستوں کے تئیں محبت کا جذبہ تھا۔وہ اپنے شاگردوں کو صرف تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ تربیت بھی کرتے تھے۔ایسے استاد اس زمانے میں عنقاہیں۔

دوسرے دن فیروز صاحب کومیں نے پھرفون کیا۔اس وقت ان کے اندر بات کرنے کی سکت شایدپیداہوچکی تھی۔ انہوں نے غمگین لب ولہجے میں بتایا کہ موت نے ان کا پیچھااسی دن سے شروع کردیاتھاجس دن انہوں نے ممبئی جانے کا ارادہ کیا۔ ممبئی جانے سے ایک روز پہلے یعنی 21 مئی 2012 کو شریف صاحب فیروز صاحب سے ملنے ان کے گھر گئے ہوئے تھے۔ بقول فیروز صاحب اس وقت وہ سفرکے لائق بالکل نہیں تھے۔اس لیے فیروزصاحب نے انہیں سفرکرنے سے منع بھی کیا تھالیکن ممبئی جانے کا انہوں نے مکمل ارادہ کرلیاتھا کیوں کہ ہر حال میں انہیں اپنے بھانجے کی شادی کی تقریب میں شامل ہونا تھا۔تمام رشتہ داروں سے ملنا تھا اور سب کے ساتھ خوشیاں بانٹنا تھا۔ لیکن افسوس کہ ایسانہیں ہوپایا۔ ٹرین ہی میں دل کا دورہ پڑا ۔ وقت اور حالات کی ستم ظریفی نے انہیں شادی کی تقریب کے بجائے ممبئی کے نانا وتی اسپتال میں پہنچا دیا۔کافی دنوں تک اسی اسپتال میں داخل رہے۔لیکن دن بدن ان کی طبیعت بگڑتی چلی گئی۔تھک ہار کر انہیں 31 مئی کودہلی لایا گیااور پرانی دہلی کے ایک اسپتال میں بھرتی کردیاگیا۔پانچ جون کوان کے دل کی بائی پاس سرجری ہوئی۔ان کی حالت رفتہ رفتہ بہترہونے لگی تھی۔یہاں تک کہ23 جون کوانہیں گھربھی لایاگیالیکن دوسرے ہی دن انہیں پھر اسپتال میں داخل کردیاگیا۔انتہائی نگہداشت یونٹ میں انہیں رکھا گیا۔مصنوعی آلہ(پیس میکر)بھی لگایاگیالیکن 82 سالہ شریف صاحب موت کو شکست نہ دے سکے اور20 جولائی(بروزجمعہ) کوتقریباً دوپہر کے ڈھائی بجے سب کو روتے بلکتے چھوڑ کر اس دنیائے فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔خداان کو جنت الفردوس اورا ہلِ خانہ ،رشتہ داروں،شاگردوں اوردوستوں کوصبرجمیل عطاکرے۔ آمین۔

نہ جانے پہلی اپریل 1930کو سیارے اپنے مدارمیں گردش کرتے ہوئے کس مقام پر تھے اور امروہے کی سرزمین سے کتنے ڈگری کے زاویے بنارہے تھے جب شریف صاحب اس دنیامیں تشریف لائے اور شرافت، قناعت اورقلندری ان کی شخصیت میں شامل ہوگئی۔نہ جانے یہ ستاروں کے سازگار گردش کاکمال ہے یا اس پاک سرزمین کے صوفیوں،سنتوں اوربزگوں کی دعاؤں کا اثر ہے کہ وہ علم وہنر کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔اس شبھ گھڑی کو میراسلام ،وہاں کے صوفیوں،ابدالوں اور بزگوں کومیراسلام جنہوں نے استادِ محترم کی شخصیت سازی میں اہم کردار اداکیا۔ان حالات اوراشخاص کابھی میں شکرگزارہوں جن کی وجہ سے شریف صاحب پہلے کرناٹک کالج، دھارواڑ پھر الفنسٹن کالج، ممبئی اور آخرمیں شعبۂ اردو ،جمّووکشمیر یونیورسٹی ، سری نگر کی ملازمت ترک کرکے جنوری 1962 میں دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردومیں آئے اور مجھے ان کا شاگردہونے کا شرف حاصل ہوا۔

استادِ محترم ڈاکٹر شریف صاحب سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی تھی مجھے کچھ یاد نہیں ہے۔دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں میرا داخلہ کافی تاخیر سے یعنی جولائی کے بجائے ستمبر میں ہواتھا۔داخلے کے سلسلے میں میں شعبہ میں جاتا تھااس لیے تمام اساتذہ کو شکل سے پہچانتا تھا لیکن نام سے واقف نہیں تھا۔داخلہ ہوجانے کے بعد جب کلاس میں جانے لگا تو تمام اساتذہ کوان کے نام اورکمالات سے بھی واقف ہونے لگا۔میرے سینیر ساتھی بتایاکرتے تھے کہ اگر لکچرربنناچاہتے ہو تو فلاں فلاں پروفیسروں سے تعلقات بہتربناؤ اوران کی ناک کے بال بن جاؤ کیوں کہ ان کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ہندوستان کی ہریونیورسٹی پروفیسران اورشعبہ کے صدور ان کی بات سنتے ہیں۔سیاست دانوں تک بھی ان کی پہنچ ہے۔ لیکن اگرعلم حاصل کرناچاہتے ہواور ایک اچھاانسان بنناچاہتے ہوتوڈاکٹرمغیث الدین فریدی اور ڈاکٹرشریف احمد کی محبت اور قربت حاصل کرو۔اس وقت تک میں نے لکچررکاخواب نہیں دیکھاتھا۔میں تو صرف اردوادب کا ایک سچا اور لائق طالب علم بنناچاہتا تھااور اردوکی تہذیب اورمٹھاس کواپنے اندرجذب کرناچاہتاتھا ۔دراصل میں اپنے گھرسے دہلیIASکے امتحان کی تیاری کی غرض سے آیااور اردوایک اختیاری مضمون کے طورپر لیناچاہتاتھا۔اس لیے میں نے مغیث الدین فریدی اور شریف احمد صاحب کی صحبت اورقربت کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔ان اساتذہ کی صحبت کااثرمجھ پرایساپڑاکہ میں IAS کاامتحان بھول گیا اوررفتہ رفتہ میں اردوکے سانچے میں ڈھلتا چلاگیا۔آج میں جوکچھ ہوں انہیں اساتذہ کی بدولت ہوں۔

شریف صاحب ایک مثالی استاد تھے۔ان کی ہر ادا اور خاص کر ان کا اندازگفتگو،کلاس روم میں داخل ہونے،کلاس روم میں کھڑے ہونے اور اپنے طلبہ سے مخاطب ہونے کا اندازبالکل منفردتھا۔کلاس روم میں آتے ہی پہلے وہ بتاتے تھے کہ اس کے پہلے کے کلاس میں انہوں نے کیاپڑھایا تھااور اس وقت کس موضوع پرلکچر دینے والے ہیں۔ان کے Body Language سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ پوری تیاری کے ساتھ آئے ہوئے ہیں اور آج دن بھر پڑھائیں گے۔ وہ جس موضوع پرلکچردیتے تھے اس سے متعلق پہلے بے شمار سوالات قائم کرتے تھے۔مثلاً ’خطوط غالب‘ اگر پڑھانا ہے تو پوچھتے تھے کہ خط کیا ہے؟ مضمون ،انشائیہ اور خط میں کیا فرق ہے؟ خطوط توہم سب لکھتے ہیں لیکن ہمارے خطوط کیوں نہیں پڑھائے جاتے ہیں۔ غالب کے خطوط کیوں آپ کے کورس میں شامل کئے گئے ہیں؟اردو نثر کے ارتقامیں غالب کے خطوط کے اثرات کیا ہیں؟غالب کی نثر اور فورٹ ولیم کالج کے زمانے کی نثرمیں بنیادی فرق کیا ہے؟کیا خطوط غالب اپنے دور کی تہذیب و تاریخ کا آئینہ ہے؟غالب کے خطوط اور مولانا آزادکے خطوط میں کیا فرق ہے؟کیا غبار خاطر کے خطوط کو بھی خط کہاجاسکتا ہے؟یا انہیں انشائیہ کہناچاہئے؟مولانا نے اپنے مضامین کو خط سے کیوں تعبیر کیا؟اور ان مضامین کے مجموعہ کا نام غبارِ خاطر کیوں رکھا؟کچھ اور کیوں نہیں رکھا۔کیا ان کے مضامین پر رومانیت کا اثر ہے یا نہیں؟کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ Romanticism کسے کہتے ہیں؟ احمد نگر کے قلعہ کا نقشہ،اس کاجغرافیہ، اس کی دیوار کی اُونچائی،کھڑکیوں کی لمبائی چوڑائی کا ذکر ایسے کرتے تھے جیسے احمد نگر کے قلعہ میں مولانا آزاد نہیں بلکہ وہ خود قید تھے۔ کرشن چندر کے افسانوں کا تجزیہ ایسے دلکش اندازمیں کرتے کہ گلمرگ اور تمام وادئ کشمیر کامنظرآنکھوں میں پھرنے لگتا۔کبھی ’گرجن کی ایک شام‘ کامنظر اور وہاں کی برفیلی ہواؤں کی ٹھنڈک کااحساس ہونے لگتا تو کبھی جگدیش اورزیشی کی لازوال محبت کی گرمی کا بھی احساس ہوتا۔ کبھی گرجن دیوتاکی خودغرضی پرتنقیدکی نشترسے وار کرنے کا دل چاہتا۔کبھی ’بالکونی ‘کی اطالوی لڑکی ’میریا‘ کے پیانو کی آواز کانوں میں گونجتی۔اسی طرح ’’مہا مکچھمی کے پل‘‘کے قریب چال میں پھیلی ہوئی مختلف رنگوں کی ساڑیوں سے ان کو پہننے والی عورتوں کی سسکیاں اورچیخیں سنائی دینے لگتیں تھی۔ وہ کرشن چندر کے افسانوں کے متعلق ایسے نکات پیش کرتے تھے کہ ہم سب حیران رہ جاتے۔مثلاً کس طرح ایک بڑا افسانہ نگار صرف ایک خاص فضا تیار کرتا ہے اور بغیرکسی مرکزی کردار کے افسانے کی تخلیق کردیتاہے وغیرہ وغیرہ۔ ان کے لکچرختم ہوتے ہوتے کرشن چندر افسانوی ادب کے تخت وتاج پرمسندنشیں نظرآنے لگتے تھے۔

شریف صاحب لکچرس کے دوران جس انداز سے سوالات قائم کرتے اس سے تمام طلبہ سوچ میں پڑجاتے کہ آخران سوالوں کے جواب کیاہیں؟ہم سب پورے ارتکاز کے ساتھ ان کے لکچرکا ایسے انتظار کرنے لگتے جیسے سمندرمیں سیپ سِواتی نکچھترکی بارش کی پہلی بوندکے انتظارمیں اپنامنھ کھولے آسمان کی طرف دیکھتی رہتی ہے۔جس طرح سِواتی کی پہلی بوند حاصل کرنے کے بعد سیپ موتی بن جاتی ہے ۔اسی طرح شریف صاحب کے لکچرس کے بعد کچھ دیرتک خودپر گوہرنایاب ہونے کا گمان ہونے لگتا۔شریف صاحب کے لکچردینے کا یہی اندازمیں نے مختلف ادبی جلسوں اور سمیناروں کے خطبۂ صدارت میں دیکھا۔ان کے بدن کے لسان سے معلوم ہوتا تھا کہ اس موضوع پرانہیں عبورحاصل ہے اور آج گھنٹوں تقریرکرنے والے ہیں۔عام طور پر سمیناروں میں اجلاس کے آخری مقالہ سننے کے بعد سامعین باہرجانے کے لیے بے چین ہوجاتے ہیں لیکن شریف صاحب کی تقریر سننے کے لیے ہال میں سنّاٹا چھاجاتاتھا۔

یہی وجہ تھی کہ ہرطالب علم کی طرح میں بھی ان کی کلاس میں پابندی سے حاضر ہوتا تھا۔کلاس ختم ہونے کے بعد ان کے شاگرد ان کے پیچھے آتے اور وہ اکثر آرٹس فیکلٹی کی ٹی اسٹال یا Law فیکلٹی کی ٹی اسٹال پر سب کو چائے پلاتے تھے۔میں اکثر ان کے ساتھ کبھی آرٹس فیکلٹی کے گیٹ تک تو کبھی پٹیل چیسٹ کے بس اسٹینڈ تک آتا تھا اور انہیں بس میں بیٹھا کر واپس آرٹس فیکلٹی یااپنے ہوسٹل چلاجاتا تھا۔ان کے ہاتھ میں ہمیشہ ایک بیگ رہتا تھا۔میں نے کئی بار کوشش کی کہ بیگ ان کے ہاتھ سے لے لوں لیکن انہوں نے کبھی اپنا بیگ مجھے ڈھونے کے لیے نہیں دیا۔وہ ہرگز خوشامدپسند استاد نہیں تھے۔انہوں نے کبھی بھی اپنے طالب علموں سے تحقیر آمیزکفتگونہیں کی وہ ہمیشہ اپنے شاگردوں کو آپ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔

شریف صاحب کامطالعہ بے حدوسیع تھا۔کتابیں پڑھنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔پڑھتے پڑھتے ان کی آنکھوں کی روشنی کم ہوگئی تھی ۔آنکھوں کی تکلیف سے ہمیشہ پریشان رہتے تھے۔ایک دفعہ میں انہیں آنکھ کے ایک مشہور ڈاکٹر راجندرکھنّہ جومیرے مامو کے کلاس فلّوہیں،کے پاس لے گیا اور کہا کہ شریف صاحب میرے استادہیں۔میرے اور میرے شعبہ کے ساتھیوں کی بھلائی کے لیے’ سر‘کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہونا بے حد ضروری ہے۔لہٰذا انہوں نے اچھی طرح معائینہ کرکے دوائیں دیں اورآنکھوں پرزور نہ ڈالنے کامشورہ دیا ۔لیکن شریف صاحب نے کبھی بھی اپنی آنکھوں کو آرام نہیں دیا۔آرام دے بھی نہیں سکتے تھے کیوں کہ کتابیں تو ان کے لیے حیات بخش دوائیں تھیں۔ پڑھے بغیر وہ زندہ رہ بھی نہیں سکتے تھے۔وہ مختلف لائبریریوں سے اپنی پسند کی کتابیں حاصل کرتے تھے۔کبھی کبھی اپنے دوستوں اور شاگردوں سے بھی کتابیں مانگ کر پڑھتے تھے۔وہ چاہتے تودرجنوں کتابوں کے مصنف ہو جاتے لیکن انہوں اپنے علم کوشاگردوں کے اندر منتقل کیا۔کسی فلسفی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ سچے اورلائق استادوں کے سینوں میں ’علم‘ مشعل کی طرح روشن رہتا ہے جس کی حرارت عقیدت مند شاگرد محسوس کرتے ہیں۔علم کا یہ مشعل آہستہ آہستہ عقیدت اورمحبت کرنے والے شاگردوں کے سینوں کومنوّر کردیتا ہے۔علّامہ اقبال نے بھی کہا ہے’’ایک بڑے استاد اورمعلم کی حیثیت سورج کی طرح ہوتی ہے جواپنی روشنی اور حرارت ہرشے تک بے کم وکاست پہچاتا ہے۔شریف صاحب نے بھی بلا تفریق کے اپنے شاگردں پرعلم کی ضیافشانی کی۔ شریف صاحب نے بھلے ہی کتابیں کم لکھی ہوں لیکن انہوں نے کئی اچھے اسکالرس،اچھے اساتذہ اوراچھے ناقدین پیداکئے ہیں۔ایک لائق اورسچے استادکی تخلیقات کتابیں نہیں بلکہ ان کے لائق شاگرد ہوتے ہیں۔علّامہ اقبال ’’سر‘‘کا خطاب قبول کرنے کے لیے شرط رکھی تھی کہ پہلے ان کے استاد مولوی میرحسن کو شمس العلما کا خطاب دیا جائے۔انگریزوں نے علّامہ سے پوچھا کہ آپ کے استاد کی تخلیقات کیا ہیں توعلّامہ نے جواب دیاتھاکہ میرے استاد کی سب سے بڑی تخلیق میں خود ہوں۔شریف صاحب کی بھی تخلیقات ان کی کتابیں نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ان کے شاگرد ہیں۔ میں نے شریف صاحب کو ایک مصری طالب علم ’احمدمحمداحمدعبدالرحمٰن القاضی‘ کوذرّے سے آفتاب بناتے ہوئے دیکھاہے۔1987میں احمد قاضی دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں M.A. اردو میں داخلہ لیا تھا اب وہ الاظہریونیورسٹی، قاہرہ میں پروفیسرہیں۔ مثالیں اور بھی ہیں لیکن اس وقت تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔

شریف صاحب سے جڑے ہوئے واقعات اور میرے تئیں ان کی محبت وشفقت اور ان کی مہربانیوں کی داستان کافی لمبی ہے جن کی یاد مجھے اکثر آتی ریتی ہے۔ اکتوبر1986 کی ایک صبح جس نے میری زندگی بدل دی کی اکثر یاد آتی ہے۔تقریباً 9 بجے دہلی یونیورسٹی کی آرٹس فکلٹی کے مین گیٹ (جو سری رام کالج آف کامرس کے سامنے ہے) میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب ایک Tea Stall تھی ۔اسی ٹی اسٹال کے پاس کھڑاتھا کہ شریف صاحب کو خوبصورت سوٹ میں ملبوس آتے ہوئے دیکھا۔ان کے ہاتھ میں ایک کالے رنگ کا بیگ تھا جس کی چمک ان کے جوتے سے تھوڑی کم تھی۔ جب وہ قریب آئے تو انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اپنے بیگ کودونوں ٹانگوں میں پھنسا یااور جیب سے ماچس اور سگریٹ کا ڈبہّ نکالا۔ماچس ان کے بائیں ہاتھ میں اورسگریٹ داہنے ہاتھ کی دوانگلیوں کے درمیان پھنسی ہوئی تھی ۔اپنے ان دونوں انگلیوں کو بائیں ہاتھ پر ایسے ٹھوکنے لگے جیسے سگریٹ کی گرد جھاڑ رہے ہوں۔ماجس جلاکرسگریٹ سلگائی اورایک کش لینے کے بعدبھاری آوازمیں کہا’’جناب آپ کی بہت تعریف ہورہی تھی‘‘ ۔دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں داخلہ لیے ہوئے مجھے ابھی صرف دو تین مہینے ہوئے تھے ۔یونیورسٹی میں نہ مجھے کوئی جانتا تھا اور نہ میں کسی کوٹھیک سے پہچانتا تھا۔اس لیے میں نے سوچاکہ شریف صاحب شاید مجھے پہچان نہیں رہے ہیں۔میں نے ان سے فوراً پوچھا ’’سر آپ مجھے پہچانتے ہیں‘‘؟انہوں نے جواب دیا ’’ ہاں میں آپ کو پہچانتا ہوں، آپ کا نام عقیل احمد ہے اور آپ کا تعلق بہار سے ہے‘‘۔میں نے پھر پوچھا ،سر! میری تعریف کہاں ہو رہی تھی؟ انہوں نے جواب دیا،فریدی صاحب کے یہاں۔ان کے جواب سے میں مطمئن ہوگیا۔ان کی باتیں سن کر مجھے جتنی خوشی ہوئی اس سے زیادہ یہ سوچ کرڈر بھی لگنے لگا کہ اگراپنے اساتذہ کی امیدوں پر کھرانہیں اتراتوکیاہوگا؟شریف صاحب کی یہ بات ہمیشہ میرے کانوں میں گونجتی رہتی تھی اورمیں ان کے توقعات پر کھرا اترنے کی کوشش کرتا رہا۔

شریف صاحب بے حد شریف ،مخلص اورہمدرد انسان تھے۔1990 میں نہ جانے کون سا مہینہ تھا میں M.Phil کا مقالہ لکھ چکا تھا اور جلد ہی Ph.D. میں رجسٹریشن کرانا تھاکیوں انٹرنیشنل ہوسٹل ٹھہرنے کی مدّت ختم ہو چکی تھی۔لیکن Ph.D میں رجسٹریشن کرانے کے لیے M.Phil کا رزلٹ جلد سے جلد آنا ضروری تھا۔میرے نگراں ڈاکٹر مغیث الدین فریدی فکرمند تھے کہ میرامقالہ کسے بھیجا جائے کہ جلدازجلدViva کرایاجاسکے۔میں نے انہیں پروفیسرذاکرصاحب کا نام بتایاکیوں کہ انہوں نے ایک دفعہ دہلی یونیورسٹی کی سینٹرل ریفرنس لائبریری کے اردو سکشن میں کہاتھا’’میاں اگر میری مددکی کبھی ضرورت پڑے تو مجھے ضرور یاد کرنا۔فریدی صاحب نے یہ بات سن کر کہا’’ ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں‘‘۔دوسرے دن فریدی صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم شریف صاحب کا شکریہ اداکرو۔ تمہارامقالہ پروفیسر ذاکر صاحب کے پاس لے کر وہ خود گئے تھے اور Viva کی تاریخ بھی طے کردی ہے۔چار دن بعد تمہاراViva ہے۔ میں شکریہ اداکرنے کے لیے شریف صاحب کے پاس گیا تو وہ کہنے لگے شکریہ میرا نہیں فریدی صاحب کا اداکیجئے۔ وہ آپ کے لیے بے حد پریشان تھے۔یہ بات جب میں نے فریدی صاحب کو بتائی تو کہنے لگے مجھ سے کہیں زیادہ پریشان تووہ خود تھے کہ تمہیں ہوسٹل میں دوبارہ داخلہ نہیں ملنے کی صورت میں تمہارا کیاہوگا۔دراصل پریشان میرے دونوں اساتذہ حضرات تھے لیکن وہ مجھ پراحسان جتانانہیں چاہتے تھے۔میرے یہ اساتذہ احسان کرتے تھے لیکن کسی کا احسان لیتے نہیں تھے۔نیکی کرتے تھے اور دریامیں ڈال دیتے تھے۔ میں اس وقت بھی ان بزرگوں کا شکرگذارتھا، آج بھی ہوں اورآئندہ بھی رہوں گا۔ایسی اور بھی باتیں ہیں جن کی یاد آتے ہی میراسر ان کی تعظیم میں جھکنے لگتا ہے ۔وقت اور حالات نے اگر ساتھ دیا تو مستقبل میں تمام واقعات اوریادوں کو تفصیل سے لکھوں گا۔

شریف صاحب نے کبھی بھی اپنی قابلیت اورعلمی فتوحات کا ذکرنہیں کیا۔لیکن ان کے تمام ساتھی اور طالب علم ان کی تمام صلاحیتوں سے واقف تھے اوراکثروبیشتر ان کی تعریف کرتے رہتے تھے۔ شریف صاحب کو اردوزبان وادب پر جتنا عبور حاصل تھا اتناہی فارسی اور انگریزی ادب پربھی دسترس تھا۔وہ موسیقی کے فن سے بھی واقف تھے اور کبھی کبھی بے تکلف دوستوں کی محفل میں دلکش آواز میں غزلیں بھی سنایا کرتے ہیں۔شریف صاحب کے انتقال کے فوراًبعدان کے ایک پرانے شاگرد فیاض رفعت صاحب (جوپٹنہ دوردرشن کے ڈائرکٹرتھے۔اب ملازمت سے سبک دوش ہوچکے ہیں) کالکھنؤ سے فون آیا تھا ۔انہوں نے اپنے رنج وغم کااظہارکرتے ہوئے شریف صاحب کی کئی خوبیوں کاذکرکیا۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شریف صاحب کواسٹیج ڈراموں سے کافی دلچسپی تھی اوروہ ایک اچھے اداکاربھی تھے۔ فیاض صاحب نے بتایاکہ 1969 میں پروفیسرمحمدحسن نے غالب صدی کے موقع پر دہلی یونیورسٹی میں اپناہی لکھاہوا ایک ڈرامہ’’غالب‘‘ اسٹیج کیاتھا۔اس ڈرامہ میں شریف صاحب نے فقیرکا رول اداکیاتھا اورپُرسوز وپُر ترنم آوازمیں غالب کی ایک غزل گائی تھی۔اس پروگرام میں فیاض رفعت موجود تھے۔

شعبۂ اردو کے تمام اساتذہ شریف صاحب سے محبت کرتے تھے اور شریف صاحب بھی ان حضرات سے ویسے ہی پیش آتے تھے لیکن میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ استادِ محترم ڈاکٹرمغیث الدین فریدی ، پروفیسر ظہیر احمد صدیقی اور پروفیسرامیرعارفی سے وہ زیادہ قرب تھے۔ میں نے اکثر انہیں فریدی صاحب کے گھر(بی- 13 ،ریڈس لائن) میں محوِ گفتگودیکھا۔میں بھی کبھی امیر عارفی صاحب کے ساتھ اورکبھی کبھی تنہا بھی کسی نہ کسی کام سے شریف صاحب کے پرانے گھر گلی کوچۂ رحمٰن، میں ان سے ملنے کے لیے جایاکرتا تھا ۔ان کے گھر تک جانے والی تمام گلیاں تنگ تھیں۔سائیکل، رکشا،ٹھیلا گاڑی اور پیدل چلنے والوں کا ہجوم بی رہتاتھا۔ان سب سے بچتے بچاتے ان گھر تک پہنچتاتھا۔لیکن ان کے گھر پہنچ کر اور ان سے باتیں کرنے کے بعد خوشگوار اور فرحت بخش فضامیں بیٹھنے کا احساس ہونے لگتا تھا۔معلوم ہوتا تھاکہ کوچۂ رحمٰن کی تنگ گلیوں سے گذرکر یہاں نہیں آیا ہوں بلکہ خوشبودار پھولوں کے باغ سے ہوکر یہاں پہنچا ہوں۔ان کے گھر کازینہ کھڑااور تنگ تھا۔زینہ اکثرتاریک رہتا تھا لیکن شریف صاحب کے دل ودماغ کی روشنی اتنی تیز تھی کہ گلیوں کی تنگی اورزینہ کی تاریکی کااثر آنے جانے والوں پر ہرگز نہیں پڑتا تھا۔اسی طرح ان کا ڈرائنگ روم بہت چھوٹا تھا۔ڈرائنگ روم میں موجود کتابوں کی تعدادسے اوربھی چھوٹامعلوم ہوتا تھالیکن شریف صاحب کے دل کی وسعت اتنی زیادہ تھی کہ اس میں ان کے تمام شاگرد سماجاتے تھے۔ان کی اہلیہ جنہیں میں آنٹی کہتا ہوں، ممتاکی مورت ہیں۔تھوڑی ہی دیر میں چائے بسکٹ اور نمکین لے آتیں اور بے حد محبت اورشفقت سے خیریت دریافت کرتیں،بالکل میری ماں کی طرح۔ شریف صاحب دوسرے اساتذہ کے مقابلے میں باتیں ذرا کم کرتے تھے پھر بھی کافی دیر تک ان سے گفتگوہوتی رہتی تھی اور ان کے پاس سے جلدواپس آنے کادل نہیں چاہتا تھا۔لیکن نئے گھر(دریاگنج)میں ان کے منتقل ہونے کے بعدمیں بہت کم جاتا تھاکیوں کہ میں بھی یونیورسٹی کیمپس سے شپراسن سٹی، غازی آبادچلاآیااور فیملی مسائل میں مصروف ہوگیالیکن فون پر اکثروبیشتران سے گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ذاکر حسین کالج کے استاد ڈاکٹرفیروزدہلوی ان کے گھر کے بے حد قریب رہتے ہیں۔شریف صاحب سے ان کے بہت اچھے مراسم تھے۔دونون ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے رہتے تھے۔فیروز صاحب میرے بھی استاد رہ چکے ہیں اورمجھ سے محبت کرتے ہیں اس لیے شریف صاحب کی خیریت سے مجھے ہمیشہ اگاہ کرتے رہتے تھے ۔

شریف صاحب آج بھلے ہی ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن ان کافیض ابھی جاری ہے۔ میں جب بھی اپنے شاگردوں کوشاعری کی کلاس پڑھانے جاتا ہوں تواستادِمحترم مغیث الدین فریدی اورنثر یا افسانے کی کلاس لینے جاتا ہوں تو شریف صاحب میرے حواس پر چھانے لگتے ہیں۔کلاس روم میں ان کے داخل ہونے ، کھڑے ہونے اورلکچردینے کا جو انداز تھا،وہ میرے آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتا ہے۔ان کے لکچرس مجھے یاد آنے لگتے ہیں اورمیں انہیں کے لکچرس انہیں کے انداز میں دینے لگتا ہوں۔یہاں تک کہ مجھے محسوس ہونے لگتا ہے کہ فریدی صاحب اور شریف صاحب میں ہی ہوں اور میں ستیہ وتی کالج کے کلاس روم میں B.A(Hon.) کے طلبا کو نہیں بلکہ دہلی یونیورسٹی کے آرٹس فیکلٹی میں M.A (اردو) کے طلبہ کو پڑھا رہاہوں۔مجھے وقت کا خیال نہیں رہتا ہے ۔کئی دفعہ دوسرے کلاس کے بچے جب آکر کہتے ہیں کہ ’’سر! آپ کے ساتھ ہماری کلاس ہے‘‘تومجھے احساس ہوتاہے کہ میں ،’میں‘ہوں، شریف صاحب یافریدی صاحب نہیں۔ شعبہ کے میرے ایک ساتھی(ڈاکٹر ساجد حسین جو آج کل دیال سنگھ کالج میں ہیں) ایک دفعہ مجھ سے پوچھا تھا کہ آپ کس کتاب کو پڑھ کرلکچر دیتے ہیں تومیں نے فخر سے کہا تھا کہ میں کتاب پڑھ کر لکچرنہیں دیتاہوں۔یہ تومیرے استادوں کا کمال ہے کہ ان کے لکچرس آج تک میری یادداشت میں محفوظ ہیں ۔میں جب بھی کلاس پڑھانے جاتا ہوں توان کے لکچرس جو میرے دماغ کے Memory Chips میں محفوظ ہیں Activate ہوجاتے ہیں اور لکچر کے دوران خودبخودوردِزباں ہونے لگتے ہیں۔

شریف صاحب ہمیشہ میری ہمت افزائی کرتے تھے اورکہتے تھے کہ عقیل آپ سے ہمیں بہت امیدیں ہیں۔ان کا یہ جملہ سن کر میں ڈر جاتا تھا۔ 1988 میں M.A, فائینل کا امتحان دیا اور دہلی یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔دہلی یونیورسٹی میں سب سے زیادہ میڈل، گولڈمیڈل اور پرائزحاصل کرنے والوں میں میرا نمبر دوسرا تھا۔مجھے لگا کہ شریف صاحب کی امیدوں پر میں کھرااُتر چکاہوں۔شام میں ان سے ملنے کے لئے اپنے تمام میڈلس کے ساتھ ان کے گھر گیا۔وہ بہت خوش ہوئے اور بہت دعائیں دیں۔جب ان کے گھر سے واپس آنے لگا تو انہوں نے علامہ اقبال کا یہ شعر

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

سنایا۔مجھے ہلکا ساجھٹکا لگا اور سمجھ گیا کہ ان کی امیدوں پر کھرااُترناابھی باقی ہے۔میں نے دہلی یونیورسٹی سے ایم.فل.اورپی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی اور ستیہ وتی کالج میں لکچرربھی ہوگیا لیکن شریف صاحب ہمیشہ یہ کہتے رہے ’’عقیل تم سے مجھے بہت امیدیں ہیں‘‘ اور تھوڑی دیر کے لیے فکرمندہوجاتاتھا۔فریدی صاحب کے انتقال کے بعدنومبر2001 میں میراایک مضمون’’زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘ماہنامہ’ایوان اردو‘میں شائع ہوا۔استاد محترم فیروزدہلوی نے کہا کہ تمہارا مضمون شریف صاحب کو بہت پسند آیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ’’ عقیل کواب ہماری اصلاح کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔شریف صاحب کاتبصرہ سن کر مجھے خوشی ہوئی لیکن اس وقت تک ان کی امیدوں پر میں کھرانہیں اُترا تھا۔اس کے بعد میری کئی کتابیں اور مضامین شائع ہوئے جنہیں پڑھ کر انہوں نے میری ہمت افزائی کی۔ 2010 میں استادِ محترم مغیث الدین فریدی کی شخصیت اور شاعری پر میری ایک کتاب ’’مغیث الدین فریدی کاتخلیقی کینوس‘‘شائع ہوئی۔شریف صاحب کی خدمت میں جب یہ کتاب میں نے پیش کی تو بے حدخوش ہوئے۔کہنے لگے ’عقیل تم نے حقِ شاگردی ادا کردیا۔تم سے مجھے یہی امید تھی۔ کتاب پڑھنے کے بعد بھی انہوں نے فون کیا اور اس کتاب کے سلسلے میں جو تبصرے کیے اسے سن کر میں خوشی سے رو پڑا۔پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ میں ان کی امیدوں پر اب کھرااُترچکاہوں۔شریف صاحب کے انتقال سے چند مہینے پہلے فیروز صاحب نے مجھے فون کیا اور پوچھا کہ کیاپروفیسر شکیل الرحمن نے اپنی کوئی کتاب تمہارے نام منسوب کی ہے؟میں نے ’جی سر!‘ کہتے ہوئے پوچھا آپ کو کس نے بتایا؟ انہوں نے کہا کہ شریف صاحب نے۔شریف صاحب کا نام سن کر میرے دل میں ان کا ردعمل سننے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ لہٰذافیروز صاحب سے بات ختم کرنے کے فوراً بعدشریف صاحب کو فون کیا اور ان کی خیریت دریافت کی اسی درمیان انہوں نے کہا کہ شکیل الرحمن صاحب نے اپنی کتاب ’’محمدداراشکوہ ‘‘آپ کے نام معنون کیا ہے ۔کیا آپ کو معلوم ہے؟میں نے کہا ’جی سر!‘۔انہوں نے پھر پوچھا’’شکیل الرحمٰن صاحب نے آپ کے متعلق جوComment لکھا ہے کیا آپ نے اسے پڑھا؟میں نے پھر کہا ’جی سر!‘۔اس کے بعد شریف صاحب نے کہا ’’جناب یہ بہت بڑی بات ہے‘‘۔ان کی باتیں سن کر میں خود پر فخرمحسوس کررہاتھا لیکن میں نے ان سے کہا کہ’ سر‘ !شکیل الرحمن صاحب نے میرے نام اپنی کتاب کا جو انتساب کیا ہے اور جوکچھ میرے بارے میں لکھا ہے اس کے لائق میں نہیں ہوں۔انہوں نے تو صرف محبت میں لکھا ہے۔شریف صاحب نے پھرکہا،’’نہیں میں بھی ان کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں‘‘۔شریف صاحب سے یہ میری آخری ٹیلی فونک گفتگو تھی۔کاش وہ آج زندہ ہوتے اورمیں انہیں غالب کا یہ شعرسناتا:

لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز

لیکن یہی کہ رفت، گیا اور بود، تھا

 اور ان سے گزارش کرتا کہ سر! آپ میری تعریف مت کیجئے آپ توصرف یہی کہتے رہئے کہ عقیل تم سے مجھے بہت امیدیں ہیں اوراقبال کا وہ مصرع بھی مجھے یاد دلاتے رہئے کہ’’ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔‘‘

 

 

عقیل بھائی

اسلامُ علیکم!

 

 

استاد محترم ڈاکٹر شریف احمدپر لکھا ہوا خاکہ پڑھا۔رشید احمد صدیقی نے خاکہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ یہ تاریخی داستاویز اور شاعری کے درمیان کی چیز ہے۔اس کا تمام تر تعلق حافظے میں موجود یادوں کو جگاکرانہیں ذاتی، خوشگواراورغیررسمی لب ولہجے میں بیان کردینے سے ہے‘‘۔آپ کا یہ خاکہ اس تعریف پر ہرف ہرف صادق آتا ہے۔اتنااچھاخاکہ آپ ہی لکھ سکتے تھے۔مبارک باد۔خوش ہوا،آنکھیں نم ہوگئیں۔یوں تو میرے بھی ان سے اچھے مراسم تھے لیکن آپ نے جس طرح یادوں کوجگایاہے وہ لاجواب ہے۔خاکہ بالکل غیررسمی اندازمیں لکھا گیا ہے۔یہ آپ کی محبت کاتاج محل ہے جوتحریرکی شکل میں ہے۔یہ وہ تحریر ہے جوبڑے بڑے مضمون پربھاری ہے۔یہاں شریف صاحب بھی ہیں ، فریدی صاحب بھی،عارفی صاحب بھی اوردرمیان میں خاکہ نگار بھی ہے۔خدااتنی محبت کرنے والے میرے بڑے بھائی کوسلامت رکھے۔اگرمیں اس دنیا سے پہلے رخصت ہوا تووعدہ کیجیے آپ مجھ پرایساہی خاکہ لکھیں گے۔

 احمدامتیاز