اتوار، 26 اپریل، 2009

عاشور كاظمي اور مرثيے كا تجديدي سفر/Ashoor Kazmi/Marsia

Dr.Shaikh Aquil Ahmad
(Associate Professor)
E-mail: aquilahmad@yahoo.com
Website:people.du.ac.in/~aahmad


سيدعاشور كاظمي اردوكے سچّے عاشق اور جاں نثار هيں۔ دنيا كے شايد يه ايسے مجاهدِ اردو هيں جنهوں نے اردو كي خدمت كے ليے ايئر لائنس كا كاروبار ترك كر ديا اور فروغ اردو كے ليے اپني زندگي اور دولت وقف كر دي ۔عاشور كاظمي اپني ذات ميں ايك انجمن هيں، ايك فرد نهيں ايك اداره هيں۔ مختلف اصناف ميں انھوں نے تابنده نقوش مرتسم كيے هيں۔ ان كي شعري تخليقات ميں ٫٫حرف حرف جنوں٬٬ ان كا شعري مجموعه هے جس ميںغزليں هيں ، ٫٫چراغ منزل٬٬ اور٫٫صراطِ منزل٬٬ حمد، نعت، منقبت اور سلام كے مجموعے هيں۔، نثري تخليقات ميں ٫٫راهوںكے خُم٬٬ افسانوں كا مجموعه هے جبكه ٫٫سخن گسترانه٬٬ اور٫٫چھيڑخوباں سے٬٬ طنز و مزاح، انشائيے، خاكے اور مضامين كے مجموعے هيں۔ ٫٫فسانه كهيں جسے٬٬ افسانے پر تنقيدي و تحقيقي نوعيت كي كتاب هے جس ميں دو هزار قبل مسيح سے حال تك يوروپ ، جنوبي امريكه اور روس كے عهد ساز افسانه نگاروں كي تخليقات كے حوالے سے افسانے كے عروج و زوال پر بحث اردو افسانے كي دونوں روايتوں كے تناظر ميں مغرب ميں مقيم انتاليس افسانه نگاروں كا تنقيدي تعارف ايك ايك افسانے كي روشني ميں كرايا گيا هے۔ ٫٫ترقي پسند ادب كا پچاس ساله سفر٬٬مختلف مضامين كا مجموعه هے جس ميں پچھلے پچاس سالوں ميں تخليق هونے والے ترقي پسند ادب كا جائزه پيش كيا گيا هے۔٫٫ بيسويں صدي كے اردو نثر نگار مغربي دنيا ميں ٬٬۔مغربي دنيا كے تمام فكشن نگار،مزاح نگار،محقق، ناقد، تاريخ گو، رپور تاز نگار،صحافت نگاروغيره كے تخليقي تنوعات اور تنقيدي تجليات كے حوالے سے گفتگو كي گئي هے۔ ٫٫ بيسويں صدي كے اردو اخبارات و رسائل مغربي دنيا ميں٬ ٬مغربي دنيا كے تمام رسائل،جرائد اور اخبارات كا تنقيدي جائزه پيش كيا گيا هے۔ ٫٫اس گھر كو آگ لگ گئي ٬٬ جدوجهد آزادي كے تناظر ميں غداروں كے خطوط پر مشتمل دستاويز هے۔ ٫٫ راگ رنگ ٬٬ميں انهوں نے موسيقي كي تاريخ اور فني تجزيات، لغتِ موسيقي اور اوزان موسيقي پر سير حاصل بحث كي گئي هے۔ ان كے علاوه ٫٫نكاتِ فن٬٬ اور انگريزي تاليف commitment" ٬٬ ميں لندن ميں انجمن ترقي پسند مصنفين كي گولڈن جوبلي كے موقع پر پيش كيے گئے انگريزي زبان ميں مقالے اور كچھ اهم اردو مقالوں كا انگريزي ميں ترجمے شامل هيں۔هندستان كے ادبي حلقے ميں ان كي تمام كتابيں بے حد مقبول و مشهور هوئي هيں۔
متذكره تمام كتابوں كے علاوه سيد عاشور كاظمي كا سب سے بڑا ادبي كارنامه مرثيے كے فن پر بصيرت افروز تحقيق و تنقيد اوران كي مرتب كرده تاريخِ مراثي هے ۔ شاعري كي تمام اصناف ميں مرثيه ايك ايسي صنف هے جس ميں طبع آزمائي كي جرات كم هي شاعروں نے كي هے جبكه شاهد هي كوئي ايسا مرثيه گو شاعر هو جس نے غزليں اورمروجه شعري اصناف ميں بھي قا درا لكلامي كا ثبوت نه پيش كيا هو۔
مرثيے كي تخليق جس طرح هر شاعر كے بس كي بات نهيں هے اسي طرح اس موضوع پر تخليق اور تنقيد بھي هر محقق اور ناقد كے بس كي بات نهيں هے۔ اس كي پهلي وجه تو يه هے كه اس موضوع پر كام كرنے والے زياده تر محققين اور ناقدين نے اس صنف كے صحتِ متن سے متعلق بهت سي غلط فهمياں پيدا كي هيں اور دوسري يه كه مرثيے كا ايك ايك مصرع متعدد شاعرانه خوبيوں اور صنعتوں سے آراسته هو تا هے ۔مثال كے طور پر ٫٫تجزيه يادگارِ انيس٬٬ ميں انيس كے مرثيه ٫٫ جب قطع كي مسافتِ شب آفتاب نے٬٬كے بندوں ميں ٦٥٨٢ محاسن كي نشاندهي ڈاكٹر تقي عابدي نے كي هے۔مير انيس كے متذكره مرثيه ميں ڈاكٹر عابدي نے محاسن كي جو تعداد بتائي هے اس سے اختلاف كرنے كي گنجائش هے۔پھربھي يه كهنا غلط نهيں هے كه ايسي اصناف پر تحقيق يا تنقيد كے ليے قلم اٹھانا هر شخص كے مقدور سے باهر هے۔ليكن عاشور كاظمي نے اس مو ضوع پردو كتابيں تحرير كركے يه ثابت كر ديا هے كه وه عام ناقدين اور محققين سے الگ هيں اور ان كا علم كئي جهات كو محيط هے ۔اس موضوع پران كي پهلي كتاب ٫٫ مرثيه نظم كي اصناف ميں٬٬ جديد مرثيے كي تاريخ پر تحقيقي اور تنقيدي كتاب هے جو مرثيه كے محققين كے ليے ماخذ كي حيثيت ركھتي هے۔ مرثيے پر لكھے جانے والے مضامين ميں اس كتاب كا حواله ميري بات كي تائيد كے ليے كافي هے۔
عاشور كاظمي كي تازه ترين كتاب پهلي نظر ميں مرثيے كي مكمل تاريخ معلوم هوتي هے۔ ليكن اس كتاب كے مندرجات كو ديكھ كر لگتا هے كه يه مرثيے كي مكمل تاريخ سے آگے كي چيزهے اور اس كا نام ٫٫اردو مرثيے كا سفر﴿سولهويں صدي سے بيسويں صدي تك﴾ اور بيسويں صدي كے اردو مرثيه نگار٬٬ كے بجائے Encyclopedia of Marsia هونا چاهئے۔اس كتاب كو مرثيے كي مكمل تاريخ بھي مان ليا جائے تب بھي اس كي اهميت كم نهيں هو سكتي كيو ں كه مرثيے كي تاريخ پر اب تك كوئي دوسري ايسي وقيع اور مستند كتاب نهيں لكھي گئي هے۔ اس كتاب كي دوسري اهم خصوصيت مرثيه گو شاعرات، غير مسلم مرثيه نگار اور مغرب ميں آباد اردو مرثيه گو شعرائ كي شموليت هے۔ آج سے پهلے مرثيه گو شاعرات اور مغرب ميں موجود مرثيه گو شاعروں پر اس قدرجامعيت اور منطقي ترتيب كے ساتھ نهيں لكھا گيا۔ گنے چنے غير مسلم مرثيه نگاروں كا ذكرتو كهيں كهيں مل جا تا هے ليكن غير مسلم مرثيه گو شاعروں كا مكمل تجزيه و تعارف پهلي بار اس كتاب ميں شامل كيا گيا هے۔ ايك اعليٰ درجے كي تاريخِ مراثي اردو هونے كے ساتھ ساتھ يه كتاب تحقيق و تنقيد كے عروج كي مثال بھي هے۔ مصنف نے اس كتاب ميں سولهويں صدي سے بيسويں صدي تك كے كُل ٤١٤مرثيه گو شعرائ و شاعرات كا ذكر مختلف موضوعات كے تحت كيا هے جس ميں شاعرات كي تعداد٤٢ ، غير مسلم مرثيه نگاروں كي تعداد ٧١ اور مغرب ميں آباد شعرا و شاعرات كي تعداد ٨هے۔ ان تمام مرثيه گو شعرا و شاعرات كے سوانحي كوائف كي تفصيل معلوم كرنا كوئي معمولي كام نهيں هے۔اس كے علاوه ان كے مرثيوں كو جمع كرنا اور ان كے متون كي صحت كو درست كرنے كے بعد نمونے كے طور پر قاري كے سامنے پيش كرنا كسي ايرے غيرے محقق كے بس كاروگ نهيں هے۔ مصنف نے اس تحقيقي نوعيت كے كام كو جس حسن و خوبي كے ساتھ انجام ديا هے اس سے ان حضرات كي شكايت دور هو جاتي هے جو يه كهتے هيں كه دور حاضر ميں اردو زبان و ادب ميںتحقيق اور تنقيد زوال پذيرهے ۔ مرثيے كے موضوع پر بے شمار كتابيں لكھي جا چكي هيں جن ميں شبلي ، محي الدين زور، مصحفي ، شاد عظيم آبادي ثابت لكھنوي ، ڈاكٹر صفدر حسين ، علي جوادزيدي ، ڈاكٹر ابو لليث صديقي، ڈاكٹر اكبر حيدري، ڈاكٹر عظيم امروهوي، ڈاكٹر احسن فاروقي ،پروفيسر مسعود حسن رضوي ، پروفيسر رضا كاظمي، مسيح الزماں، ڈاكٹر هلال نقوي، ڈاكٹر نيّر مسعود، پروفيسر سيد عقيل رضوي، پروفيسر زماں آزرده ، ضمير اختر نقوي ، ڈاكٹر تقي عابدي اور ڈاكٹر ارشاد احمد خان نيازي وغيره قابل ذكر هيں جن كي كتابوں سے مرثيے پر كام كرنے والوں نے كسي نه كسي حد تك استفاده كيا هے ۔ ظاهر هے كه مصنف نے اپني كتاب كي ترتيب دينے سے پهلے اس موضوع پر لكھي گئي كئي بيشتر كتابوں كا مطالعه كيا هے اور ان كتابوں كي خوبيوں اور خاميوں كو ذهن ميں ركھ كر زير بحث كتاب كي ترتيب دي هے اور ان ميں پائي جانے والي خاميوں اور كميوں كي طرف بھي اشاره كيا هے اور كئي كتابوں كو غير معياري اور ناقص بھي قرار ديا هے ۔ان كتابوں پر تنقيد اور زير بحث كتاب كي تخليق كا مقصد اپني علميت كا مظاهره كرنا نهيں هے بلكه اس صنف كے تئيں قار ي ميں ترغيب و تشويق پيدا كرنا هے۔ اس مقصد كو مد نظر ركھتے هوئے عاشور كاظمي نے ايك جگه لكھا هے كه:
٫٫هميں اس حقيقت كو بھي پيش نظر ركھناهے كه آج كے ميكانكي اور مصروف دور كا عام قاري تحقيقي نكات ميں كم هي دلچسپي ركھتا هے لهٰذا يه سوچا گيا كه مرثيه گو شعرائ كے مختصر كوائف اور ضروري معلومات پر مشتمل ايك ايسي كتاب پيش كي جائے جو مرثيے كے عام قاري كو بوجھل تحقيق سے بچائے اور مرثيه گو شعرائ كا مختصراً و مستند تعارف كرا سكے٬٬۔﴿ص- ٤٣﴾
مصنف نے كتاب آسان سے آسان اورعام فهم بنانے كے ليے سائنسٹفك طريقے سے مختلف موضوعات كے تحت ترتيب دي هے۔ روايتي دستور كے بر خلاف شاعروں كا تذكره به اعتبار حروفِ تهجي كيا گيا هے ۔مصنف نے اس كتاب ميں مرثيه گو شعرائ و شاعرات كے يوم پيدائش، يوم وفات اور جائے پيدائش لكھنے سے پهلے اس كي كافي چھان پھٹك كي هے۔بعض مقامات پر بڑے بڑے محققوں اور ادبي مورخوں سے اختلاف بھي كيا هے اور ان اختلافات كا جواز بھي پيش كيا هے۔مثلاً ٫٫تاريخ ادب اردو٬٬ كے مصنف پروفيسر حامد حسن قادري كي كتاب٫٫تاريخ مرثيه گوئي٬٬ ميں درج هاشم علي كے آبائي وطن گجرات كو رد كرتے هوئے ايك جگه لكھتے هيں كه :
٫٫هاشم علي كے عهد كے بارے ميں محققين ميں كچھ اختلاف بھي هے حتٰي كه مولانا حامد حسن قادري نے ٫٫تاريخ مرثيه گوئي٬٬ ميں انهيں هاشم علي گجراتي لكھا هے اور اس پر استدلال كرتے هوئے هاشم علي كا ايك شعر نقل كيا هے۔
گجرات ميں پڑھے جب يه مرثيه گو ياراں
من كر چلے هيں رونے دكني دكن كو اپنے
مولانا قادري نے گجرات ميں مرثيه پڑھ كر دكن كو چلنے سے هاشم علي كو گجرات كا شاعر ثابت كيا هے۔يه استدلال بے معني سا لگتا هے۔دكن كا شاعر گجرات ميں پڑھنے كے بعد دكن كو جاتا هے تو اس سے وه گجرات كا شاعر كيسے ثابت هو سكتا هے ۔٬٬﴿ص- ١٥﴾
اسي طرح٫٫ موازنه انيس ودبير٬٬ ميں شبلي نے جن اشعار كي كي بدولت دبير كو انيس سے كم تر درجے كا مرثيه گو ثابت كيا هے اسے رد كرتے هوئے مصنف نے بتايا هے كه يه اشعار دبير كے هيں هي نهيں ۔اپنے دعوے كو مدلل كرنے كے ليے ڈاكٹر تقي عابدي كي تحقيق سے بھي استفاده كيا هے۔ مولانا شبلي نے جن اشعار كومرزا دبيرسے منسوب كيا تھا ان ميںسے دو اشعار كے مصرعِ اول يه هيں: ٫٫زيرِ قدمِ والده ، فردوسِ بريں هے٬٬ اور ٫٫فرمايا ميں حسين عليه السلام هوں۔٬٬ عاشور كاظمي نے ان اشعار كے تعلق سے ايك جگه لكھا هے كه:
٫٫گويالكھنو كے با كمال شاعرمرزا دبير كو يه بھي سليقه نهيں تھا كه امام خود كو اپني زبان سے٫٫عليه السلام٬٬كهه سكتے تھے۔شبلي كے پهلے الزام كا جواب يه هے كه مرزا دبير كے پورے كلام ميں زيرِ قدمِ والده فردوسِ بريں هے٬٬ مصرع نهيں ملتا۔بلكه يه مصرع حكيم قدير الدوله كے ديوان ميں ملتا هے۔لهٰذاثابت هوا كه يه مصرع مرزا دبير كا نهيں هے۔اب آپ چاهيں تو شبلي كي نيت كا محاسبه كريں اور چاهيں تو ان كے سليقه علم كا تجزيه كريں۔اسي طرح ٫٫فرمايا ميں حسين عليه السلام هوں٬٬ بھي مرزا دبير كے كلام ميں نهيں ملتا۔ڈاكٹر تقي عابدي نے فروري ٤٠٠٢ ميں برطانيه ميں منعقد ٫٫جشن اردو٬٬ ميں اس بات كي لفظ به لفظ تائيد و تصديق كي كه يه مصرعے دبير كے نهيں هيں٬٬۔﴿ص -٥٨﴾
عاشور كاظمي نے ان اشعار كے تعلق سے يه كه كر كه ٫٫ اب آپ چاهيں تو شبلي كي نيت كا محاسبه كريں اور چاهيں تو ان كے سليقه علم كا تجزيه كريں٬٬ شبلي كي نيت اور تحقيقي صلاحيت پر سواليه نشان لگا ديا هے اور ان كے حاميوں كو بھي لا جواب كرديا هے ۔اس سے نه صرف ان كي تحقيقي صلاحيتوں كا اندازه هوتا هے بلكه ان كي بے باك اور جرات مند تنقيدي رويّے كا بھي پته چلتا هے۔ اپني تحقيق كو مزيد مستحكم بنانے كے ليے ڈاكٹر عابدي كے خط كا ايك اقتباس بھي پيش كيا هے:
٫٫شبلي نے يه مصرع ٫٫زيرِقدمِ والده فردوس بريں هے٬٬ مرزا دبير سے منسوب كيا هے۔دفترِ ماتم كي بيس جلدوں ميں يه مصرع نهيں ملے گا۔يه مصرع حكيم قدير الدوله كے اس مرثيه كا مطلع هے٫٫ارشاد مجھے آج هے يه لوح و قلم سے٬٬۔﴿ص ٦٨﴾
واضح هو كه خط كا يه عبارت ٫٫ردّالموازنه٬٬ سے ماخوذ هے۔يهاں ايك بات قابل ذكر هے كه عاشور كاظمي نے تقي عابدي كا حواله دے كر ادبي ديانت داري كا ثبوت پيش كيا هے جبكه بعض نام نهاد محققوںنے تو بغير كسي كا حواله ديئے اسے اپني هي تحقيق بتايا هے۔موازنه انيس و دبير كے جواب ميں جو كتابيں لكھي گئيں هيں ان ميں اس كي وضاحت تفصيل سے ملتي هے كه يه اشعار دبير كے نهيں هيں۔
عاشور كاظمي نے مرثيه اور مرثيه نگاروں پر تحقيق كرتے هوئے بعض نئے انكشافات بھي كيے هيںاور بعض قديم مسلمات كو مسترد بھي كيا هے۔اور بعض بزرگ محققين سے اختلاف كرتے هو ئے جرات مندانه اور اكتشافي طريق كار اختيار كيا هے مثلاً خاتون مرثيه گو٫٫ ديوي روپ كماري٬٬ كے تعلق سے ان كي تحقيق بالكل مختلف هے۔حيرت هے كه روپ كماري كومحققوں نے خيالي كردار بتا يااور ان كے مرثيوں كو استاد شاعروں سے منسوب كر ديا۔ ان محققوں ميںپهلا نام حضرت نسيم امروهوي كا هے جنهوں نے ديوي روپ كماري كے وجود سے ا نكار كرتے هوئے تخيلاتي بتايا اور ان كے مرثيوں كو فضل رسول پهر سري سے منسوب كيا۔ايسے محققوں ميں دوسرا نام ڈاكٹر صفدر حسين صاحب كا هے جنهوں نے حضرت نسيم امروهوي كي طرح روپ كماري كو پهلے تو فرضي كردار بتايا ليكن بعد ميں فضل رسول كے ايك خط كي بنيادپر بتا يا كه يه نام فرضي نهيں هے۔عاشور كاظمي نے ان تمام محققين كي رائے كوٹ كرتے هوئے ان سے مدلل اختلاف كيا هے اور مرثيے كے ايك استاد شاعر اور بزرگ نجم آفندي كے ملاقات كا حواله ديتے هوئے بتا يا كه ديوي روپ كماري ان سے اپني شاعري پر اصلاح ليا كرتي تھيں۔ عاشور كاظمي نے روپ كماري كے حقيقي وجود كا انكشاف كر كے تحقيق كا حق ادا كر ديا اور ايك با كمال مرثيه گو شاعره كو گمنامي سے باهر نكال كرمرثيه نگاروں كي فهرست ميں شامل كر ديا۔ يه آج كے علمي زوال كے دور ميں بهت بڑي كاوش هے اوراس تحقيق كي تحسين وستائش بجا طور پر هوني چاهئے۔
مصنف نے مرثيه نگاروں كے مرثيوں اور بندوں پر سير حاصل گفتگو كرتے هوئے مرثيے كے اجزائے تركيبي كے بعض باريك پهلوو ں پر بھي روشني ڈالي هے اور اس كي اهميت كي طرف بھي اشاره كيا هے۔مثلاً قصيدے كے گريز كي طرح ٫٫ساقي نامه٬٬ بھي مرثيے كا ايك اهم جز هے جس كے اشعار دو مجاهدوں كي رزم كے بيان كے درميان كهے جاتے هيں تاكه قاري كو ايك مجاهد كي رزم سے دوسرے مجاهد كي رزم تك پهنچنے ميں جھٹكا نه لگے۔عاشور كاظمي نے ساقي نامه كي اهميت اور ضرورت پر گفتگو كرتے هوئے بنياد تيموري كے مرثيوں كے بندوں اور٫٫ ساقي نامه٬٬پر اس طرح اظهار خيال كيا هے:
٫٫بنياد تيموري كے مراثي ميں بھي ساقي نامه ايك اهم جز هے ليكن ان كے مرثيوں ميں جهاں قاري كسي ايك مجاهد كي جنگ ميں محصور هو جاتے هيں تو بنياد تيموري دوسرے مجاهد كي رزم تك لے جانے كے ليے درميان ميںساقي نامه كے كچھ كے كچھ اشعار ڈالتے تھے تاكه ايك كيفيت ميں جاتے وقت مرثيے كے قاري كو جھٹكا نه لگے۔٬٬﴿ص ٥٥٣﴾
عاشور كاظمي نے بنياد تيموري كے مرثيوں اور ساقي ناموں كے اشعار كے متعلق جو رائے دي هے اس سے دو باتوںكي طرفاشارے ملتے هيں۔پهلا يه كه بنياد تيموري كے رزميه اشعار ميں ايسي جادوئي كيفيت پائي جاتي هے جو قاري كو اپنے اندر مسحور كر لے تي هے اوردوسري يه كه مسحور كن فضا پيدا هونے سے ذهن ميدانِ كربلا ميں شهيد هونے والے مجاهدوں كي عظمت، بهادري اور جانبازي كے كارناموں كي طرف جاتا هے جس سے معلوم هوتا هے كه عاشور كاظمي كي تنقيد ميںيه اشاره بھي ملتا هے كه ميدان كربلا ميں ايسے مجاهدين تھے جن كے كارناموں كو بيان كرتے وقت اشعار ميں مسحور كرنے والي كيفيت پيدا هوجانا لازمي هے اگر چه شاعر قادرالكلام هو۔ نيز اس كيفيت سے نكلنے كے ليے ٫٫ساقي نامه٬٬ كے اشعار كي اهميت اور ضرورت كيا هے اس بات كا بھي احساس مصنف نے دلايا هے۔بنياد تيمور ي كے مرثيوں كے اشعار اور شهدائے كربلا كي اس سے بهتر تعريف ممكن نهيں تھي۔
اسي طرح صبا اكبر آبادي كي مرثيه نگاري پر اپني رائے ديتے هوئے دوسرے ناقدين كي تنقيد كا بھرپور تجزيه وتحليل كيا هے اور مرثيے كے فن پر اعليٰ درجے كے تنقيدي شعور كا ثبوت ديا هے۔ صبا اكبر آبادي كي مرثيه نگاري پر علّامه طالب جوهري نے اظهار خيال كرتے هوئے ان كے مراثي كے چهروں ميں جديديت كي آميزش كي نشان دهي كي تھي اور اس سے مراد ارتقائے فكر اور ترقي پسند رجحانات ليا تھا ليكن عاشور كاظمي نے اسے مسترد كرتے هوئے بتايا هے كه مراثي صبا كے چهروں ميں زندگي كي مختلف جهات كي جو بازگشت سنائي ديتي هے اس كا تعلق ارتقائے فكر اور ترقي پسند رجحانات سے نهيں هے بلكه يه تو جديد مرثيه هے اوريهي ارتقائے فكروبصيرت هے۔ عاشور كاظمي نے پهلے اس بند كو نقل كيا هے:
مامور تھے هر شهر په بيدرد ستم گار

اظهارِ حقيقت كا عوض تھا رسن و دار
لب هلنے كا انجام هوا كرتي تھي تلوار

قانون تھا حاكم كے اشاروں ميں گرفتار
انسان كا معيار جگر كوٹ رها تھا
اس عهد ميں اسلام كا دل ٹوٹ رها تھا
صبا اكبر آبادي كے اس بند كي روشني ميں سيد عاشور كاظمي كي يه تنقيدي رائے ملاحظه كيجئے:
٫٫علامه طالب جوهري علمي ادبي اقدار كي رواں دواںصورت حال سے بهت با خبر رهتے هيں اس ليے امكان يه هے كه صبا اكبرآبادي كے مراثي كے چهروں ميں ٫٫جديديت٬٬كي آميزش سے علّامه موصوف كي مراد ٫٫ارتقائے فكر اور ترقي پسند رجحانات ٬٬سے هوگي ٫٫سابق تحريكِ جديديت٬٬نهيں۔اس امكان كو يقين بنانے ميں صبا صاحب كے مرثيوں كے چهرے گواه هيںكه صبا اكبر آبادي كے كلام ميںجديديت والا ابهام نهيں بلكه ارتقائے فكري هے اور تسلسل هے۔صبا اكبر آبادي مراثي ميں بھي زندگي كي مختلف جهات پر بات كرتے نظر آتے هيں،يهي جديدمرثيه هے اور يهي ارتقائے فكروبصيرت هے۔٬٬ ﴿ص- ٥٥٦﴾
مصنف نے جس طرح علامه طالب جوهري كي رائے پر تيكھي تنقيد كي هے اور مندرجه بالا بند كے مصرعوں كے ذريعے شاعر كے ارتقائے فكر و بصيرت كي پهچان كي هے اور مرثيے كوآج كي زندگي كے تقاضوں سے هم آهنگ كيا هے بلكه صبا جيسے شاعروں كے هاتھوں ميں اس فن كے روشن امكانات كو بھي ظاهر كيا هے جس سے نه صرف صبا اكبرآبادي كي عظمت كا احساس هوتا هے بلكه مصنف كي اپني وسيع تر تنقيدي بصيرت اور آگهي كا بھي ثبو ت ملتا هے۔
ايك انٹر ويو ميںجديد مرثيه گوئي كے متعلق اپنے نقطه نگاه كي وضاحت كرتے هوئے صبا صاحب نے بتايا تھا كه:
٫٫ميں نے يه محسوس كيا هے كه مرثيه ابلاغ كا اور اتحاد كابهترين ذريعه هے، پھر اس ميں شاعري بھي هے۔ مرثيه كے ذريعه ميں انسانيت كے اعليٰ ترين اقدر كو اپنے معاشرے ميں اور اپنے عهد ميں پھيلانا چاهتا هوں۔مرثيه كو اتحاد بين المسلمين كا ذريعه بنانا چاهتا هوں٬٬﴿ صبا اكبر آبادي، جهانِ حمد ونعت نمبر۔ص ٤٤٣﴾
صبا صاحب كے انٹرويو كے مندرجه بالا اقتباس سے عاشور كاظمي كي رائے كو اور زياده تقويت ملتي هے۔
عاشور كاظمي نے بعض مرثيه نگاروں كے مرثيوں ميں نئے نئے نكات اور نئے نئے پهلوو ں كو اجاگر كيا هے اور اپني بات كي تائيد ميں ديگر ناقدوں كي رائے بھي نقل كي هے۔مثلاً عام طور پر مرثيه نگاروں نے اپنے اشعار ميں خير كي تشريح كي هے ليكن علّامه جميل مظهري نے اپنے مرثيوں كے اشعار ميں خير كے بجائے شر كي تشريح كي هے۔سيد عاشور كاظمي نے اس نكتے كي طرف اشاره كرتے هوئے اپني بات كي تائيد ميں پروفيسر رضا كاظمي كي رائے كه ٫٫پيمانِ وفا٬٬ غالباً پهلا مرثيه هے جس ميں كسي خير كے بجائے شركي تشريح كي گئي هے٬٬كوكوٹ كيا هے اور اس پر اپنا ردعمل يوں ظاهر كيا هے:
٫٫كچھ لكھ كر قلم توڑ دينا ٬٬ والي كها وت اس مختصر جملے پر صادق آتي هے۔حقيقت يهي هے كه اس مرثيے ميں جميل مظهري نے جبر كي تاريخ پيش كي هے۔اور سياق و سباق اس كا يه هے كه ٥٣٩١ ميں جارج پنجم كي جوبلي كے موقع پر انگريز حاكموں نے ماه عزا كي پرواه كيے بغير امام باڑوں ميں چراغاں كا حكم دے ديا تھا۔جب اس حكم كي تعميل بے چوں وچراهو گئي تو اس تساهل كوبهت سے شعرائ نے هدف بنا يا ۔حضرت مسلم بن عقيل سے غداري كرنے والوں كے احوال سے گريز كرتے هوئے بيك جنبش قلم جميل مظهري جوبلي پر امام باڑوں ميں چراغاں كے دكھ پر آگئے۔ديكھئے كيسے؟ابن زياد گورنر كوفه كے حكم پر كثير ابن شهاب، حاميان حسين كوڈراتا دھمكاتا هے۔جميل مظهري ان دو مو قعوں كو كيسے يكجا كرتے هيں۔كوفه كي حالت٬٬:﴿١٤٤﴾
كهيں زنجيروں كي دھمكي تھي كهيں بارشِ زر

كام كرنے لگا هر سمت حكومت كا اثر
سن كے يه غُل كه چلا آتا هے شاهي لشكر

عورتيں لے گئيں مردوں كو قستم دے دے كر
يوں هي ايماں كي طرف خوف مكيں هوتا هے
دل ميں راسخ هو غلامي تو يوں نهيں هوتا
متذكره بيان ميں جس طرح مصنف نے جميل مظهري كے مندرجه اشعار ميں شر كي تشريح كي وضاحت كي هے اور جس طرح پروفيسر رضا كاظمي كي رائے پر اپنا رد عمل ظاهر كيا هے اس سے معلوم هوتا هے كه ان كي تنقيدي نظركتني گهري اورهمه گير هے كه وه مرثيوں كے باريك پهلوو ں كي تهه تك به آساني رثائي حاصل كر ليتے هيں اور جس طرح اس پس منظر كو پيش كرتے هيں جس كے زير اثر يه اشعار وجود ميں آئے اس سے ان كي وسعت علمي كا بھي اندا زه هوتا هے۔
مرثيے پر اب تك جتني كتابيں اور مضامين لكھے گئے هيں ان ميں شايد هي كوئي ايسي كتاب يا مضمون هو جس ميں كم وبيش مير انيس اور مرزا دبير كا ذكر كسي نه كسي بهانے نه آيا هو اور ان كي شعري مميزات پر كچھ نه كچھ نه كها گيا هو۔ عاشور كاظمي نے بھي انيس و دبير كي شاعرانه خوبيوں پر اختصار و اجمال كے ساتھ جس طرح اظهار خيال كيا هے اسے كسي طويل مضمون ميں بھي اس طرح كي بصيرت نهيں ملتي۔ايك جگه مير انيس كي شاعري پر رقم طراز هيں:
٫٫انيس كي مرثيه گوئي اور ان كي قادرالكلامي كے ليے بلا خوف و ترديدكها جا سكتا هے كه وه چاهتے تو قطره كو سمندر پر محيط كر ديتے تھے،نقطے كو مضامين كي وسعت دے ديتے تھے۔انهوں نے غلط نهيں كها تھا كه اك رنگ كا مضمون هو تو سو رنگ سے باندھوں اور جب اختصار پر آتے تھے تو ايك شعر تفسيروں كا نچوڑ هوتا تھا۔٬٬ ﴿ص ١٨﴾
شبلي نے اپني مشهور تخليق ٫٫موازنه انيس و دبير٬ ٬ ميںفصاحت اور بلاغت كو دو الگ الگ شاعرانه صفات قرار ديا هے اور بلاغت پر فصاحت كو ترجيح دي هے كيوں كه شبلي كے مطابق فصاحت ميںجو تاثيرهے وه بلاغت ميں نهيں هے۔ فصاحت اور بلاغت كے اسي فرق كو بنياد بنا كر مراثي انيس و دبير كا موازنه كرتے هوئے شبلي نے بتا يا كه انيس كے مرثيوں ميں بلا كي فصاحت اور دبير كے مرثيوں ميںاعلٰي درجے كي بلاغت هے ليكن چونكه تاثير، دبير كے مقابلے ميں انيس كے يهاں زياده هے لهٰذا انيس دبير سے بهتر مرثيه گو شاعر هيں۔٫٫موازنه انيس و دبير ٬٬ كے بعد اس موضوع پر لكھي جانے والي بيشتر كتابوں ميں انيس و دبير اور فصاحت و بلاغت كے متعلق شبلي كے هي راگ كو الاپا گيا۔شاهد هي كسي ناقد يا ماهر علم بيان و بديع نے شبلي كے نظريے كے خلاف اپني جدا گانه رائے دينے كي جرات كي هو كيوں كه ايك زمانے تك حالي اور شبلي ناقدوںكے ذهن ميں تنقيد كي دنيا كي ايك ديو قامت طلسمي بت كي مانند چھائے رهے۔ عاشور كاظمي نے نه صرف اس طلسمي بت كو توڑا بلكه فصاحت اور بلاغت كي نئي تعريف بيان كرتے هوئے بتا يا كه علم ِ بيان و بديع كي روشني ميں يه دونوں صفات ايك دوسرے سے الگ نهيں هيں بلكه بلاغت كي شعاعيں فصاحت سے هي نكلتي هيں۔جيسا كه پچھلے صفحات پر ذكر كيا جا چكاهے كه عاشور كاظمي نے شبلي كے ذريعے كوٹ كيے گئے دبير سے وابسته اشعار كو خارج كرتے هوئے بتا يا كه يه اشعار دبير كے هيں هي نهيں جن كي بنياد پر انيس و دبير كے شاعرانه مرتبے ميں فرق كيا گيا ۔ عاشور كاظمي كي تنقيدي بصير ت كي وسعت اس اقتباس ميں ملاحظه كيجئے:
٫٫مير انيس اور مرزا دبير كي عظمت كے نادان دشمن وه هيں جنهوں نے شعوري طور پر ان دو هم عصر اساتذه فن شعرا كے درميان گروه بندي اور عصبيت كي فضا پيدا كي اور دونوں كو ايك دوسرے كا دشمن ثابت كرنے كي كوشش كي۔ ايسے لوگوں ميں سرِ فهرست وه هيں جنهوں نے موازنه انيس و دبير لكھ كر انيس كے مقابلے ميں دبير كو كمتر درجے كا شاعر ثابت كرنے كي بھرپور كوشش كي هے۔ يه كوشش اگر شعوري هے تو نه صرف مير انيس اور مرزا دبير كي عظمت كے منافي هے بلكه مرثيے كي همه گيري اور يك جهتي كے خلاف ايك سوچي سمجھي سازش كهي جا سكتي هے اور اگر غير شعوري هے تو شبلي كي دانشورانه صلاحيتوں كي نفي كرتي هے۔شبلي نے فصاحت و بلاغت كو دو الگ الگ اصناف قرار دے كر فصاحت كو مير انيس كے نام لكھ ديا اور بلاغت كو ادق الفاظ كي ميراث كه كر اسے مرزا دبير كے كھاتے ميں ڈال ديا جبكه حقيقت يه كه بلاغت فصاحت سے عليحده كوئي صنف نهيںهے بلكه فصاحت كے باب ميں هي آتي هے۔٬٬﴿ص ٥٨﴾
مصنف نے اپني رائے ميں جهاں فصاحت اور بلاغت كو ايك هي شاعرانه خوبي سے نكلنے والي دو صفات قرار ديا هے وهيں مرثيه گو شاعروں كو دو مختلف گروهوں ميں تقسيم كيے جانے كي كوشش كو غير مناسب ٹھرايا هے كيوں كه ايسي كوشش سے مرثيے كي يك جهتي اور همه گيريت مجروح هو سكتي هے۔ مصنف كے اس بيان سے يه بھي اشاره ملتا هے كه مرثيه ميں آفاقي صنف هونے كي صلاحيت موجود هے۔
جيسا كه جگ ظاهر هے مرثيه وه صنف سخن هے جسے شهدائے كربلا كي ياد ميں لكھا جاتا رها هے لهٰذا اردو كے بيشتر ناقدين نے صنف مرثيه كو صرف مذهبي جذبات كے اظهار كا وسيله سمجھا اور اسے مسلمانوں كے ايك فرقے سے وابسته كر ديا جس كي وجه سے اس صنف كو وه همه گير شهرت اور مقبوليت نهيں ملي جو غزل اور دوسري شعري اصناف كو ملي جبكه مرثيے ميں صنعتوں اور صفات شاعري كي ايك دنيا آباد هے ۔صرف اتنا هي نهيں اس ميں مظلوموں كي آه و پكار، ظلم و ستم كے خلاف آوازكي تھرتھراهٹيں موجود هيں نيز يه صنف ظالموں اوراستعماري اور استكباري طاقتوں كے خلاف متحد هونے كي ترغيب بھي ديتي هے۔ يه صنف موجوده دور كے تمام چيلنجوںكا سامنا كرنے كي قدرت ركھتي هے اور اس كادائره محدود نهيں بلكه بے كراں هے۔ عاشور كاظمي نے ان تمام پهلوو ں كي طرف اشاره كرتے هوئے اس صنف ميں پائے جانے والے بے شمار روشن امكانات كو بروئے كار لانے پر زور ديا هے۔مصنف نے مرثيے كي صنف پر اظهار خيال كرتے هوئے عزاداري كي تعريف، اس كي اهميت اور ضرورت كو نه صرف تسليم كيا هے بلكه ان ناقدين كو اپني تيكھي تنقيد كا نشانه بنايا هے جنهوں نے بغير سوچے سمجھے عزاداري حسين كو كسي خاص فرقے سے منسوب كركے اس كي اهميت كو كم كرنے كي كوشش كي هے۔مصنف نے اس بات پر زور ديا كه عزاداري حسين كسي ايك فرقے سے مخصوص نهيں هے بلكه سنيوں اور غير مسلموںكے يهاں بھي عزاداري كي روشن روايت رهي هے جو قومي اتحاد كي مثال هے۔اپني بات كي تائيد ميں مصنف نے ان صوفيائے كرام كا خصوصي ذكر كيا هے جنهوں نے مرثيے لكھے اور عزاداري حسين كو فروغ ديا۔شهادت حسين كو عالم انسانيت كاالميه اور ورثه قرار دے كر مرثيے كو آفاقي بناديا هے۔واضح رهے كه اس نقطه نظر سے مرثيے كا مطالعه نهيں كيا گيا تھا ۔ ايك جگه لكھتے هيں كه:
٫٫مرثيه شيعه هے نه سنّي بلكه ايك اهم صنف ادب هے اور عزاداري حسين يا غم حسين، مسلمانوں كا ورثه هے۔شهادتِ حسين عالمِ انسانيت كا سرمايه هے جو اسلام كے توسط سے عالمِ انسانيت كے سامنے آيا۔٬٬ ﴿ص ٩٤﴾
عزاداري حسين كے موضوع پر بحث كرتے هوئے مصنف نے ذكر رسول اور خدا كي حاكميت كو عزاداري كا جوهر قرار ديا هے اور يه بھي تلقين كي هے كه هميں اپنے ورثے كا تحفظ كرنا چاهئے۔اس كي اهميت پر زور ديتے هوئے ايك جگه لكھتے هيں:
٫٫جو قوميں اپنے ورثے كو ياد ركھتي هيں اپنے اجداد كي تاريخ كو دهراتي هيں، ان قوموں كي تاريخ بھي تابنده رهتي هيں اور ان كي نئي نسلوں كو نيا جوش اور نيا ولوله بھي ملتا هے۔جو قوميں اپني تاريخ كو نهيں دوهراتيں وه اپنے Roots كو بھول جاتي هيں ،اپني قومي يا خانداني افتخار كو فراموش كر ديتي هيں۔٬٬﴿ص ٨٤﴾
عام طور پر يه ديكھا گيا هے كه اردو شاعري ميں قنوطيت تنقيد كے نشانے پر رهي هے۔اسي ليے مير كي شاعري ميں رجائيت كے عناصر كي تلاش كي ضرورت پڑي۔ اسي رويے كي وجه سے مرثيے ميں ٫٫بين٬٬ كو ناقدوں نے ٫٫بين و بكا٬٬ استعمال كياجس سے اس كي پاكيزگي اور مذهبي اهميت مجروح هوئي۔عاشور كاظمي نے زير بحث كتاب ميں شروع سے آخر تك لفظ ٫٫بين٬٬ كے ساتھ ٫٫بكا٬٬ كا اضافه نهيں كركے اس لفظ كي اصل معنويت،پاكيزگي اور اهميت كا احساس اپنے قاري كو دلايا نيز يه بھي بتانے كي كوشش كي كه كس صورت حال اور سماجي اور تهذيبي پس منظر ميں اس كي ضرورت همارے ليے بڑھ جاتي هے۔
مصنف نے صنف مراثي كا باريك بيني سے مطالعه كرنے كے بعد اس پر قلم اٹھايا هے اور هر پهلو كو اپنے بحث كے دائرے ميں لا كر اس كي وضاحت كي هے مثلاًمرثيے اور شهادت نامے ميں بنيادي فرق كيا هے؟عزا داري كا اصل جوهر كيا هے؟وغيره وغيره۔ ٫٫نوسرهار٬٬ مرثيه هے يا شهادت نامه؟ اس پر مختلف ناقدين كي رائے سے بحث كرتے هوئے اسے شهادت نامه قرار ديا هے۔
عام طور پرتنقيد كي زبان كھردري اور اصطلاحات ثقيل اور بوجھل هوتي هيں جو عام قاري كي فهم پر گراں گزرتي هيں اور قاري تنقيد كو ايك بھاري چٹان يا پتھر سمجھ كر چوم كر چھوڑ دينے هي ميں عافيت سمجھ تے هيں۔ مگر عاشور كاظمي كي تنقيد كا معامله ذرا مختلف هے ۔ان كي تنقيدي زبان سے نه تو اكتاهٹ محسوس هوتي هے اور نه هي بوريت بلكه ايك دلچسپي كا سلسله قائم رهتا هے اور قاري عاشور كاظمي كے ساتھ آخري وقت تك سفر كرتا هے اور قاري كسي بھي مرحلے ميںخود كو عاشور كاظمي سے الگ محسوس نهيں كرتا اور نه هي اسے كسي قسم كي اجنبيت كا احساس هوتا هے۔ مصنف نے مرثيے كي تحقيق و تنقيد ميں جس زبان كا استعمال كيا هے وه مرثيے كے اشعار كي طرح دلوں ميں اترتي چلي جاتي هے۔اپني نثر ميں مزيد دلكشي پيدا كرنے كے ليے اور اپني تنقيد كي نشتر تند وتيز كرنے كے ليے بعض جگهوں پر غزل كے اشعار كي طرح اشاروں اور كنايوں ميں بھي اپني بات كهنے كي كوشش كي هے۔
عاشور كاظمي كي يه كتاب تاريخي اهميت كي حامل هے اورساتھ هي اعلٰي تحقيق و تنقيد كا بهترين نمونه بھي۔ مضمون كے ابتدائي حصے ميں مصنف كي دوسري كتابوں كا بھي ذكر كيا گيا هے جو هندستان اور پاكستان ميں بے حد مشهور هو چكي هيں ۔مجھے خوش گوار حيرت هے كه مصنف نے يه كتابيں برطانيه ميں ره كر لكھي جهاں اردو كي لائبريريوں كي كمي هے جهاں مواد كي فراهمي نهايت دشوار هے۔
ايسے بحراني حالات ميں عاشور كاظمي جيسے صاحب جنوں تحقيق كار اور مجذوب نا قد كي وجه سے برطانيه ميں اردو كي شمع نه صرف روشن هے بلكه اس شمع سے پوري ادبي كائنات بھي ضيا بار هورهي هے اور آج كے اس اردو كُش ماحول ميں يه ضياباري بھي بهت بڑي بات هے۔ كهتے هيں كه ايك زمانے ميں برطانيه كا سورج كبھي غروب نهيں هوتا تھا۔ اب جب كه برطانيه كا سورج غروب هوگيا هے تو ميں يه كهتے هوئے فخر محسوس كر رها هوں كه جب تك برطانيه ميں اردو كے جان نثار اور عاشور كاظمي جيسے ديوانے موجود هيں اردو كا سورج كبھي غروب نهيں هوگا۔ جو بات دنيا پهلے برطانيه كے بارے ميں كهتي تھي اب وهي بات اردو كے تعلق سے كهتے هوئے مجھے خوشي هو رهي هے كه برطانيه كے ادبي افق پر اردو كا سورج انڈيا سے زياده روشن اور تابناك نظر آ رها هے اور عاشور كاظمي كي شخصيت ايك نير تابناك كي طرح نظر آ رهي هے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں